Category Archives: اردو

شہید فدا کے نظریات کی یاد میں

 ھارون بلوچ

Click to read in English

ہم میں سے اکثر شہید فدا بلوچ کو اپنے دور کے ایک عوامی رہنما کے طور پرجانتے اور مانتے ہیں۔ لیکن شہید فدا کو خراج عقیدت پیش کرتے وقت اکثر ان کے نظریات کو نظر انداز کر دیا جاتا ہے۔ شہید فدا کی برسی کے موقع پر ہم انہیں نہ صرف عوامی مقبولیت کی وجہ سے یاد کریں گے بلکہ یہ ایک بہترین موقع ہے کہ ان کے نظریات کو یاد کیا جائے اور ان پر بحث ہو۔

شہید فدا کے شہادت کے دوسرے دن 3 مئی 1988 کو جب ان کے جنازے پر سینکڑوں کامریڈزاکھٹا ہوئے تو انہیں مظلوموں کے رہنما اور ایک انقلابی کے طور پر یاد کیا گیا جوامریکی خفیہ ایجنسی سی آی اے کی آنکھوں میں چھبتا ہوا ایک کانٹا تھا۔ بلوچ قوم پرستی کا امریکہ اور دوسرے سرمایہ دار طاقتوں پرانحصار کل کی بات ہے۔ شہید فدا بین الاقوامی سطح پرسامراج مخالف رہنما کے طور پر جانے جاتے تھے جو کہ خطے میں امریکی دخل اندازی کے شدید مخالف تھے۔

1980 کی دہائی میں جب شہید فدا عوامی رہنما کے طور پر ابھرے اس وقت سویت یونین واحد عالمی طاقت تھا جسے مظلوم اقوام اپنا ہمدرد تصور کرتے تھے ۔ البتہ سویت روس پر مظلوم اقوام  کا انحصار قوم پرستی اور مغربی سرمایہ دارانہ طاقتوں کے درمیان معاشقے سے کافی مختلف تھا۔ سویت دور کی کامریڈشپ روس کے حمایت پر کم اور مقامی ترقی پسند قوتوں کے ساتھ قربت پر زیادہ منحصر تھی۔

قوم پرست سیاست کے حالیہ دور میں 1980 کے بعد بلوچستان میں سیاسی ارتقا پر شاید ہی کبھی بات ہو ئی ہو جبکہ اس دور کے واقعات اور کرداروں کوایک مخصوص حد تک اپنایا گیا۔ قوم پرستی کا رجعتی تصور 1980 کے آخر میں شہید فدا کے نظریات کے برعکس ابھرنا شروع ہوا۔ فدا بلوچ کی شہادت کے بعد کے حالات بلوچستان میں یوتھ مومنٹس کی ناکامی اور ملکی وعالمی سطح پر بائیں بازو کی پسپائی سے بی ایس او اور بلوچ قوم پرستی میں ترقی پسند پہلو ختم ہوتا گیا۔ اور یوں شہید فدا کے نظریات کو بالائے طاق رکھ کر انہیں بطور قومی رہنما قوم پرستی کے مختلف طبقہ فکر  نے یکساں اپنایا۔

ترقی پسند انقلابی قوم پرستی سے رجعتی قوم پرستی کی جانب اس مراجعت  کی اب تک کوئی قابل ذکر توجیح سامنے نہیں آسکی۔ قوم پرست سیاست میں جو ترقی پسند تھے اور مارکسسزم کے ساتھ خود کو وابستہ کرتے تھے وہ ہمیشہ مارکسسٹ ہی رہے۔ ان میں سب سے نمایا نام خیر بخش مری کا ہے  جو خود کو مارکسسٹ کہتے تھے اور آخر وقت تک سوشلسٹ بلوچستان کا خواب لیئے امر ہوگئے۔ یہاں تک کہ ان کی پنجابی مخالفت بھی مارکسسٹ بنیادوں پر تھی جہاں وہ پنجاب کے مزدوروں کی بلوچستان میں نو آبادیاتی کردار کو تنقید کا نشانہ بناتے تھے۔ انہیں ایک پنجابی مزدور سے جس کا بلوچستان کے استحصال میں کو ئی کردار نہیں اتنا ہی ہمدردی تھے جتنا مزدور طبقہ سے کسی مارکسسٹ کو ہوسکتا ہے۔ اقوام میں مختلف طبقات کے تاریخی کردار پران کا نکتہ نظر ان قوم پرست حلقوں سے یکسر مختلف تھا جن کی مخالفت کا معیار خالص نسلی بنیادوں پر ہے۔

شہید فدا مظلوموں کی یکجہتی پر یقین رکھتے تھے۔ ان کا ماننا تھا کہ سماجی انصاف کی جد و جہد میں بی ایس او اکیلا نہیں ہے بلکہ یہ ایک ایسی جدوجہد ہے جس کی کامیابی کا دارومدار ترقی پسند قوتوں کی مشترکہ عمل پر ہے۔ لیکن شہید فدا کوئی آئڈیلسٹ نہیں تھے۔ مظلوم طبقات کے انقلابی یکجہتی پر پختہ یقین اور پرامیدی کے باوجود بطور ایک مارکسسٹ شہید فدا خطے کے حالات اور تاریخ پر تنقیدی نقطہ نظررکھتے تھے۔

شہید فدا مظلوم طبقات کی سیاست پر یقین رکھتے تھے اور جبر کی مختلف صورتوں کےخلاف جدوجہد میں ان طبقات کے قائدانہ کردار کو بنیادی اہمیت کا حامل سمجھتے تھے۔ اپنے ایک نایاب تقریر میں جس کی وڈیو دستیاب ہے شہید فدا سندھی مزاحمت کو سراہتے ہیں اور 1980کے دوران چلنے والے تحریک بحالی جمہوریت کے حوالے سے اپنے خدشات کا اظہار کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ ایم آر ڈی اس تحریک کو ایک مرحلے تک پہنچا سکتی ہیں لیکن وہ عوام کے نجات کی ظامن نہیں بن سکتی ’’ تحریک کو اپنے مقاصد کے حصول تک آگے لے جانے کی زمہ داری ان قوتوں پرعائد ہوتی ہے جو سامراج کے خلاف ہیں، جورجعت پسندی کے خلاف ہیں، جو قومی بالادستی کے خلاف ہیں، جو مظلوم طبقات کی سیاسی میں یقین رکھتے ہیں۔‘‘

بلوچستان کے ساتھ اپنی غیر متزلزل وابستگی کے ساتھ ساتھ شہید فدا نے بڑے منظر نامے کو کبھی نگاہوں سے اوجل ہونے نہیں دیا۔ اپنے اسی تقریر میں کہتے ہیں ’’بلوچستان کے نوجوان اپنے وطن کے مسائل، قوم کی محرومی اور استحصال کے خلاف آواز اٹھاتے ہوئے اس بات سے قطعی بے خبر نہیں کہ سامراج اور اس کے ایجنٹوں نے اس خطے کو ایک بہت بڑے مورچے میں تبدیل کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔‘‘ شہید فدا کا طلبہ اور نوجوانوں کے لیئے پیغام تھا ’’ جدوجہد کیلئے سطحی نعروں سے نکل کرحقیقی مسائل کو دیکھیں، حقیقی دشمن کی پہچان کریں اور حقیقی قوتوں کو منظم کرنے کی کوشش کریں۔‘‘

شہید فدا کی قوم پرستی ’’استحصال زدہ دہقانوں کے حقوق کا علمبرادر تھا۔‘‘ فدا مظلوم عوام، مزدور، کسان اور قبائلی سماج کے پسے ہوائے مرد و زن کے حقوق کی ہرجدوجہد میں صف اول میں ہوتا۔ ان کا کہنا تھا کہ مظلوم عوام کی آواز بنے بغیر ’’جد وجہد آگے نہیں بڑھ سکتی اور عوام کو متحرک نہیں کیا جا سکتا۔‘‘

شہید فدا کے دور کے ترقی پسند قوم پرستی کی اہمیت کبھی ختم نہیں ہوئی کیونکہ ان کےدور کے اہم تضادات آج مزید شدت کے ساتھ موجود ہیں اور حل طلب ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ عوام کے اندر شہید فدا سے محبت اور وابستگی بھی پہلے سے زیادہ شدت کے ساتھ موجود ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ اس وابستگی کو شہید فدا کے نظریات کے ساتھ جوڑا جائے۔


بشکریہ: حال احوال

یوم مئی کا پس منظر

(1894) روزا لگسمبرگ

Click to Read in English

یہ خوشنما خیال کہ مزدوروں کی چھٹی کے ایک دن کو آٹھ گھنٹے محنت کی جد و جہد کا زریعہ بنایا جائے، سب سے پہلے آسٹریلیا میں پروان چڑھا ۔ وہاں کے مزدوروں نے 1856 میں آٹھ گھنٹے محنت کے حق میں یہ فیصلہ کیا کہ ایک دن ایسا مقرر کیا جائے جس دن کام مکمل بند ہو اور مزدور پورا دن میل ملاپ اور تفریع میں گزاریں۔ چھٹی اور جشن کا دن 21 اپریل مقررہوا۔ شروع میں آسٹریلیا کے مزدوروں نے صرف ایک سال یہ دن منانے کا ارادہ کیا تھا۔ لیکن پہلے سال ہی آسٹریلیا کے مزدوروں پر اس دن کا بے مثال اثر ہوا۔ مزدوروں میں ہمہ گیر گرمجوشی پیدا ہوئی جس سے احتجاج کا ایک نیا دور شروع ہوا جس کے بعد یہ فیصلہ ہوا کہ اس دن کو ہر سال منایا جائے۔

حقیقتا ہمہ گیر کام بندی جس کا فیصلہ مزدوروں نے خود کیا ہو اس سے بہتر اورکیا ہوسکتا ہے جو انہیں اپنی قوت پر اس قدر بے مثال خود اعتمادی اور جرات فراہم کرے۔ فیکٹری کے دائمی غلاموں کو اس کے علاوہ ہمت کا بہتر زریعہ اور کیا ہو سکتا ہے کہ وہ اپنی قوت خود اکھٹی کریں اور اسے اپنے ہاتھوں میں لیں۔ لہٰذہ مزدوروں کے ایک دن کا تصور فوراََ ہی مقبول ہوا اور آسٹریلیا سے دوسرے ملکوں میں پھلنے لگا یہاں تک کہ دنیا بھر کے مزدور اس سے جڑ گئے۔

آسٹریلیا کے مزدوروں کے اولین پیروکارامریکی مزدور تھے۔ 1886 میں مزدوروں نے یہ فیصلہ کیا کہ یکم مئی عالمی کام بندی کا دن ہونا چاہیئے۔ اس دن دولاکھ مزدوروں نے کام بند کیا اور محنت کے اوقات آٹھ گھنٹے کرنے کا مطالبہ کیا۔ بعد میں پولیس کے جبر اور قانونی ہراسگی کے سبب کچھ سالوں تک یہ دن منایا نہیں جا سکا۔ لیکن 1888 میں مزدوروں نے ایک مرتبہ پھر فیصلہ کیا کہ یکم مئی 1890 کو مزدوروں کے دن کے طور پر منایا جائیگا۔

اسی دوران یورپ میں مزدور تحریک مضبوط اور متحرک ہو چکی تھی۔ 1889 کے انٹرنیشنل ورکرز کانگریس میں تحریک کے مضبوطی کا پر جوش مظاہرہ ہوا۔ اسی کانگریس میں جس میں چار سو مندوبین شریک ہوئے یہ فیصلہ کیا گیا کہ آٹھ گھنٹے کام کا دورانیہ اولین مطالبہ ہونا چائیے۔ بعد ازاں فرانسیسی یونین کے مندوبین نے یہ تجویز دی کہ اس مطالبے کو دنیا بھرمیں پھیلایا جائے جس کیلئے ایک دن عالمی سطح پر کام بندی کیا جائے۔ امریکی مندوبین نے اپنے کامریڈز کی جانب سے یکم مئی 1890 کو ہڑتال کا فیصلہ سامنے رکھا جس پر کانگریس نے فیصلہ کیا کہ اس دن کو عالمی یوم مزدور کے طور پر منایا جائیگا۔

اس طرح پہلی عالمی یوم مزدور سے تیس سال قبل آسٹریلیا کے مزدوروں نے صرف ایک دن مزدوروں کے نام کرنے کا فیصلہ کیا تھا۔ انٹرنیشنل ورکرز کانگریس نے فیصلہ کیا کہ کام کے اوقات کو آٹھ گھنٹے کرنے کے مطالبے کے حق میں یکم مئی 1890 کو دنیا بھر کے مزدور احتجاجی مظاہرے کریں گے۔ کسی نے بھی اگلے سال اس دن کو دوبارہ منانے کے بات نہیں کی۔ کوئی بھی یہ تصور نہیں کرسکتا تھا کہ کس تیزی کے ساتھ یہ تصورعام ہوجائیگا اوراسے مزدوروں کی مقبولیت ملی گی۔ البتہ، یہ محسوس کرنے اور سمجھنے کیلئے کہ یوم مئی ہر سال منایا جائے اس کیلئے ایک یوم مئی کا تجربہ ہی کافی تھا۔

پہلے یکم مئی کا مطالبہ تھا کہ مزدوری کا دورانیہ آٹھ گھنٹے کیا جائے۔ لیکن یہ مطالبہ منظور ہونے کے بعد بھی یکم مئی کی اہمیت ختم نہیں ہوئی۔ جب تک بورژوازی اور بالادست طبقات کے خلاف مزدوروں کی جد و جہد جاری ہے اور جب تک تمام مطالبات تسلیم نہیں ہوتے ہر سال یوم مئی پر یہ مطالبات دوہرائے جائینگے۔ اور جب بہتر دنوں کا سورج طلوح ہوگا ،جب دنیا بھر کے مزدور اپنی دکھوں کا مداوا دیکھیں گے ،تب ماضی کی تکالیف اور سخت جد و جہد کے اعزاز میں عالم انسانیت یوم مئی منائے گئی۔


بشکریہ: مارکسسٹس انٹرنیٹ ارکائیو

طبقاتی جدوجہد یا طبقاتی نفرت؟

ایرّیکو مالتیستا (ستمبر۱۹۲۱) / ترجمہ: بی ایم آر

Click to read in English

میں نے میلان میں جیوری ( ججوں کی کمیٹی ) کے سامنے طبقہ اور پرولتاریہ سے متعلق چند خیالات کا اظہار کیا تھا جس پہ تنقید اورحیرت کا اظہار کیا گیا۔ یہ بہتر رہے گا کہ میں ان کا جواب دوں۔

میں نے اپنے خلاف نفرت ابھارنے کے الزام کے خلاف شدت سے احتجاج کیا؛ اور اس بات کی وضاحت کی کہ میں نے اپنے پرچار میں ہمیشہ یہ دکھانے کی کوشش کی ہے کہ سماجی برائیاں ایک یا دوسرے آقا کی بد کرداری اور ظلم، ایک یا دوسرے حاکم پر منحصر نہیں ہوتیں، بلکہ ان کا انحصار حکمرانوں اور حکومتوں کے بطوراداروں کے ہوتا ہے؛ اسی لیئے، علاج بھی انفرادی حاکموں کو بدلنے میں نہیں ہے، بلکہ یہ اہم ہے کہ اس اصول کو نیست و نابود کیا جائے جس کے ذریعے انسان دوسرے انسانوں پر غلبہ حاصل کرتا ہے؛ اورمیں نے اس بات کی بھی وضاحت کی کہ میں نے ہمیشہ اس بات پر زور دیا ہے کہ پرولتاری انفرادی طور ( شخصی طور پر) بورژوا سے بہتر نہیں ہوتے، جیسا کہ اس حقیقت سے عیاں ہے کہ ایک کارکن ( بہ معنی کام کرنے والا) ایک عام بورژوا کی طرح برتاوٗ کرنے لگتا ہے، یا اس سے بھی بدتر طور سے، جب وہ حادثاتی طور پر دولتمند یا طاقتور ہو جاتا ہے۔

ایسی بیانات کو توڑا مروڑا گیا، ان کا چربہ بنایا گیا، بورژوا پریس کی جانب سے ان کی غلط تعبیر کی گئی، اور اس کی وجہ صاف ظاہر ہے۔ اس پریس کی، جسے، پولیس اور دھوکہ بازوں کے مفادات کی تحفظ کے لیئے پیسے دیئے جاتے ہیں، کا فرض بنتا ہے کہ وہ انارکزم کی حقیقت کو لوگوں سے چھپائیں اور کوشش کریں کہ اس کہانی کو تقویت دیں کہ انارکست نفرت سے بھرے غارتگر ہیں؛ پریس اپنا فرض سمجھ کر یہ کرتی ہے، لیکن ہمیں یہ ماننا پڑے گا کہ کبھی کبھی وہ یہ اچھی نیت کے باوجود بھی کرلیتے ہیں، وہ ایسا اپنی لاعلمی کی وجہ سے کرتے ہیں۔ چونکہ، صحافت، جو ایک مقدس بلاوے کی طرح تھا، اب محض نوکری یا کاروبار میں بگڑ کر تبدیل ہو چکا ہے۔ صحافی اخلاقی حس کھونے کے ساتھ ساتھ دانشوارانہ ایمانداری سے بھی ہاتھ دھو بیٹھے ہیں، جو ان چیزوں کے بارے میں بات کرنے کے حوالے سے انسان کو روکتی ہے جس سے وہ لا علم ہو۔

چلیں ہم زر خرید لکھاریوں کو بھول جاتے ہیں، اور ان کی بات کرتے ہیں جو ہم سے مختلف خیالات رکھتے ہیں، اکثر فقط خیالات کے اظہار کے طریقوں میں ان کا اور ہمارا فرق ہوتا ہے، لیکن وہ ہمارے دوست رہتے ہیں کیونکہ ان کا اور ہمارا مقصد ایک ہوتا ہے۔ ان لوگوں کی حیرانگی کا کوئی جواز نہیں ہے، اس حد تک کہ میں سوچتا ہوں کہ شاید کوئی بیرونی عنصر ان پر اثر انداز ہو رہا ہے۔ وہ اس بات کو نظر انداز نہیں کر سکتے کہ میں یہ چیزیں پچاس سالوں سے لکھ اور بول رہا ہوں، اور یہی چیزیں سینکڑوں اور ہزاروں انارکست، میرے عہد میں، اور مجھ سے پہلے کہہ چکے ہیں۔

چلیں اختلاف پر بات کر لیتے ہیں۔

کچھ کارکن زہنیت کے لوگ، جو یہ سمجھتے ہیں کہ کھردرے ہاتھوں کا ہونا الہامی طور پرانھیں تمام اچھائیوں سے لبریز کر دیتی ہے؛ وہ احتجاج پر اتر آتے ہیں اگر آپ نے یہ جرات کی کہ آپ لوگوں کی، اور انسانیت کی بات کریں، اور اگر آپ پرولتاریہ کے مقدس نام کی قسم کھانے میں ناکام ہوں۔

اب، یہ سچ ہے کہ تاریخ نے پرولتاریہ کو سماجی تبدیلی کا بنیادی آلہ بنایا ہے، اور وہ لوگ جو ایک ایسے سماج کی تعمیر و تشکیل کے لیئے لڑ رہے ہیں جہاں تمام انسان آزاد ہوں، اور انہیں اپنی آزادی کے اظہار کے لیئے تمام زرائع دستیاب ہوں، انھیں بنیادی طور پر پرولتاریہ پر ہی انحصار کرنا ہو گا۔

ابھی تلک، قدرتی وسائل اوراس سرمائے کی ذخیرہ اندوزی، جسے آج اور گذشتہ کل کی نسلوں نے تخلیق کیا، لوگوں کی محکومیت اور سماجی برائیوں کی زمہ دار ہے، یہ بات پھر قدرتی ہے کہ جن کے پاس کچھ نہیں، وہ لوگ براہ راست اور واضح طریقے سے پیداوار کے زرائع کو تقسیم کرنے میں دلچسپی رکھیں گے، اور وہی ظبطگی کے بنیادی ایجنٹ ہوں گے۔ اسی لیئے ہم اپنے پروپگینڈہ میں پرولتاریوں سے مخاطب ہوتے ہیں، جن کی حالت زندگی دوسری جانب، اس بات کو مشکل بنا دیتی ہے کہ وہ ایک اعلی آئیڈیل کی تخلیق اور تشکیل کر سکیں۔ البتہ، اس سب کے باوجود کوئی وجہ نہیں ہے کہ غریب کو ایک فیٹش میں تبدیل کیا جائے؛ اور نا ہی اس کو ان کے اندرنفسی طور پر برتری کے احساس کا سبب بنایا جانا چاہیے کہ کوئی بھی صورتحال جو ان کے اپنے کردار یا ان کے ارادوں سے نہ نکلتی ہو، انھیں یہ حق نہیں دیتی ہے کہ وہ دوسروں کے ساتھ غلط طریقے سے پیش آئیں، اس برے سلوک کے بدلے جو ان کے ساتھ روا رکھا گیا تھا۔ چھالہ زدوہ ہاتھوں کا جبر( جو کہ عملاّ تب چند ایسے لوگوں کا جبر بن جاتا ہے جن کے ہاتھ مزید چھالہ زدہ نہیں ہوتے)، کم سخت، اور برا نہیں ہوتا، اور کہ یہ دستانے پہنے ہووّں کے جبر سے کم بدیوں کو جنم دینے والا بھی نہیں ہوتا۔ بلکہ، یہ کم بصیرت والا اور زیادہ ظالمانہ ہوتا ہے: فقط اتنی سی بات ہے۔

غربت شاید اتنی ہولناک چیز نہ ہوتی، اگر یہ اخلاقی سفاکیت، مادی نقصان، اور جسمانی تنزلی کا باعث نہ بنتی، خاص طور پرجب یہ نسلوں تک چلتی ہے۔ غریبوں میں مراعات یافتہ طبقے کے مقابلے، جن میں برائی دولت اور طاقت کی فراوانی سے پیدا ہوتی ہیں، میں الگ قسم کی علتیں ہوتی ہیں، لیکن غریبوں کے عیب بس الگ ہوتے ہیں، بہتر نہیں۔

اگر بورژوا میں سے جولیٹی، گرازیانی، اورانسانیت پر ظلم کرنے والوں کی لمبی فہرست گزری ہے جن میں عظیم الشان فاتحوں سے لے کر نچلے درجے کے روز مرہ کے آقا شامل ہیں، وہیں دوسری طرف کیفیارو، ریکلس، اور کروپاٹکین جیسے لوگ جنھوں نے ہر عہد میں اپنے طبقاتی مراعات اس لیئے قربان کیئے کہ انسانیت کی جان خلاصی ہو بھی اسی طبقے سے ( یعنی بورژوازی) سے نکلے ہیں۔ اسی طرح سے، اگر پرولتاریہ نے انسانیت کی خاطر بے شمار شہید اور ہیرو دیئے ہیں، اسی طبقے سے وائیٹ گارڈز بھی نکلے، ایسے قصاب جواپنے ہی بھائیوں کا قتل عام اور ان سے غداری کرتے رہے، جن کے بغیر بورژوا ظلم ایک دن بھی نا چل سکتا۔

نفرت کو کس طرح انصاف کے اصولوں کے متبادل کے طور پر کھڑا کیا جا سکتا ہے، جبکہ انصاف کی مانگ ہی روشن فکری کا متقاضی ہے، اور یہ واضح ہے کہ بدی ہرسو ہے، اور برائی کے وجود کی وجوہات شخصی خواہشات اور زمہ داریوں سے اس پار جاتی ہیں؟

اگر طبقاتی جدوجہد سے مراد جابروں کے خلاف استحصال زدہ لوگوں کی جدوجہد ہے تاکہ استحصال کا خاتمہ ہو، تو بے شک طبقاتی جہدوجہد ہوتی رہے۔ بلاشبہ یہی جدوجہد، اخلاقی اور مادی بلندی کا راستہ ہے، اور یہی مرکزی انقلابی قوت ہے جس پر انحصار کیا جا سکتا ہے۔

لیکن نفرت نہیں ہونی چاہیے، کیونکہ پیار اورانصاف نفرت سے جنم نہیں لے سکتے۔ نفرت انتقام لے کر آتی ہے، اپنی سبقت کو مضبوط کرنے کی خواہش، اور دشمن کو زیر کرنے کی تمنا بھی اس کے ساتھ آتی ہیں۔ نفرت صرف نئی حکومتوں کی بنیاد ہو سکتی ہے، اگر کوئی جیت جائے، لیکن یہ انارکیت کی بنیاد نہیں ہو سکتی۔

بدقسمتی سے، افتادگان کی نفرت سمجھ میں بھی آتی ہے، وہ جن کے جذبات اور جسموں نے معاشرے کی طرف سے صرف کرب اور عذاب دیکھا ہے: بہرحال، جیسے ہی جس جہنم میں وہ رہتے ہیں وہ ایک ارفع اور اعلی تصور سے روشن ہو جاتا ہے، نفرت غائب ہو جاتی ہے، اس کی جگہ اجتماعی بہبود کے لڑنے کا ایک جذبہ لے لیتا ہے۔

اسی وجہ سے ہمارے ساتھیوں میں سچی نفرت کرنے والے نہیں ملیں گے، البتہ اس سے متعلق لفاظی کرنے والے بہت ہیں۔ وہ شاعر کی طرح ہیں، جو کہ ایک اچھا اور پرسکون باپ ہوتا ہے، لیکن وہ نفرت کے گیت اس لیئے گاتا ہے کیونکہ ایسا کرنا اس سے اچھے مصرعے ترتیب دینے کا موقع میسر ہوتا ہے۔۔ یا شاید برے مصرعے۔ وہ نفرت کی بات ضرور کرتے ہیں، لیکن ان کا نفرت محبت سے بنا ہوتا ہے۔

اسی وجہ سے میں ان سے محبت کرتا ہوں، بے شک وہ مجھے گالیوں سے نوازتے رہیں۔


بشکریہ: مارکسٹس انٹرنیٹ ارکائیو

طبقاتی سوال سے منکر تو کیسے؟

تحریر: مشکین بلوچ

دنیا میں تمام کلچر، زبان اور روایات وہاں کے جغرافیہ اور اور ذرائع معاش سے ہمہ وقت جڑی ہوتی ہیں۔ کارل مارکس تاریخی مادیت کو واضح الفاظ میں بیان کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ ”انسانی تاریخ دو طبقات کے بیچ تضادات و کشمکش کی تاریخ ہے۔ جب دو طبقات اپنے درمیان عدل نہیں کر سکے تو ان کے بیچ اس تضاد نے نئے نظام کی بنیاد رکھی ہے۔“

اس بات سے انکار کیسے کیا جا سکتا ہے کہ صنعت کی بلندی سے ذرائع پیداوار کو ایک ہی بلڈنگ کے اندر اور ترسیل کو دنیا کے اندر تک پھیلایا گیا جس میں شروعات میں تو یہ تضاد چونکہ موجود تھا جبکہ انسانی زندگی میں مسلسل بہتری کی وجہ سے اظہار نہیں ہو سکا۔ جیسے جیسے بحران بڑھتا گیا تو بحران شدید تر ہوتا گیا اور سرمایاداری کے نامیاتی بحران میں یہ وحشت ناک شکل اختیار کر گیا جس نے نہ صرف صنعتی شہروں میں ہلچل مچا دی بلکہ نیم صنعتی اور ذراعت کے شعبے تک پہنچ گئی۔ آج دیکھا جا سکتا ہے کہ اس کی ذد میں پوری دنیا آچکی ہے۔

سرمایہ داری کی بحران کا اظہار دنیا کے ہر کونے میں اپنے بساط اور کردار کے مطابق ہو رہا ہے۔ ہندوستان میں کسانوں کی بڑی تعداد نے ٹریکٹر مارچ کا آغاز کرکے مودی اینڈ کمپنی حکومت کو مفلوج کردیا ہے۔ امریکہ جیسے عظیم طاقت ریاستوں میں بلیک لائیوز میٹر کے نام پر عوام اپنے غصے کا اظہار کر رہے ہیں۔ اس طرح مشرق میں بھی عرب اسپرنگ کے بعد اٹھنے والی مسلح اور عوامی تحریکیں تھم نہ سکی ہیں۔ ان دو دہائیوں میں دنیا بھر میں مختلف تحریک مرحلہ وار ابھرتے رہے ہیں۔ مگر بد قسمتی سے انقلابی قیادت کی عدم موجودگی کی وجہ سے ذائل ہو گئے ہیں۔

اس طرح بلوچستان میں ساحل و وسائل کے مالک بلوچ عوام پے در پے اپنے غم و غصے کا اظہار کرتی رہی ہے جہاں شروعات میں سرداروں نے اس تحریک کی سربراہی کی اور قبائلی طرز پر تحریک کے دائرے محدود تھے۔ قبائلی داخلی تضادات کے اردگرد ہی اتحاد اور تحریک کا رویہ چلتا رہا جبکہ تیسرے مرحلے میں اس تحریک کی قیادت عام بلوچ مڈل کلاس کے ہاتھ آگیا اور قومی تحریک مسلح اور غیر مسلح بنیادوں پر چلتا رہا۔ مختلف رکاوٹوں کے باوجود تحریک کمزور ضرور ہوا لیکن خاتمہ نہ ہو سکا۔

بلوچستان میں چلنی والی تحریک براہ راست تو قومی تحریک تھی لیکن اس میں ایندھن طبقاتی ہی رہی ہے۔ قیادت اگر اوپر کے طبقے کے پاس رہا تو نیچے کارکن ہمیشہ نچھلا طبقہ ہی رہا اور سیاست بھی اسی نچھلے طبقے کے ارد گرد رہا ہے۔ اور اس تحریک میں اگر کوئی دلیل دیا جاتا تو اسی نچھلے طبقے کی”نت شپادی، بزگی، لاچاری، لنگڑی“کا چہرہ دنیا کو دکھا کر تحریک کے لیے سفارتکاری کی گئی ہے۔اس تحریک کی کامیابی بھی سن اکہتر کے بعد نچھلے طبقے کو شامل کرنے بعد زیادہ زور پکڑتا گیا اور تحریک کی منشور کا جائزہ لیا جائے تو منشور نچھلے طبقے کی ہی ہے۔ اب یہاں بات یہ آتی ہے کہ دانشور مسلسل قومی تحریک اور طبقاتی سوال کو آپس میں متصادم قرار دیتے ہیں جبکہ یہ دونوں ازل سے ایک دوسرے کے ساتھ انٹر لنکڈ ہیں۔بلوچ قومی تحریک میں بلوچ نچھلے طبقے کی بات کرکے نچھلے طبقے کے بلوچ کو بنیاد بنا کر مسلسل جڑت قائم کی جاتی رہی ہے۔ تو اس تحریک پر طبقاتی سوال واضح اور غالب ہے۔

یہاں طبقاتی سوال کو صرف چند سرداروں کی چند مثال پیش کرکے جٹلایا جاتا ہے کہ یا ان کے چند قربانیوں سے غیر طبقاتی جدوجہد قرار دیتے ہیں بلکہ اوپر کے طبقے کو برابر کا حصہ دار قرار دیتے ہیں۔ حالانکہ جدید نوآبادیات میں ایک نئے اوپری طبقے کی جنم بھی ہوتی ہے۔ نئے میٹروپولیسس تعمیر ہوتی ہے۔ پرانے افسر شاہی کی جگہ مقامی افسر شاہی لیتی ہے۔ مقامی لوگ ہی استحصالی مشینری کے پرزے بن جاتے ہیں اور جہاں پچھلے جاگیردار کارآمد نہیں ہوتے تو نچھلے طبقے سے کچھ لوگوں کو پورا اختیار اور طاقت دے کر پرزا بنانے کی کوشش کی جاتی ہے۔ یوں جدید نوآبادی اپنے استحصال اور ظلم کو ساختیت میں تبدیل کر دیتا ہے۔

کبھی کبھار غیر صنعتی شہروں میں طبقاتی سوال کو اس لیئے بھی رد کیا جاتا ہے کہ وہاں سرمایہ داری نے ابھی تک جنم نہیں لی جبکہ دیکھا جائے تو سرمایہ داری کی منڈی وہاں موجود ہوتی ہے اور دو طبقات مکمل طور پر واضح ہوجاتے ہیں۔ لیکن وہ جدید نیولبرل چارم نظر نہیں آتا جبکہ سرمایہ داری کی نقل و حرکت جاری رہتی ہے اور کہیں خام مال بھی نکالا جاتا ہے جوکہ بنیادی طور پر سرمایہ داری کو زندہ رکھا ہوا ہوتا ہے۔ جیسے دیکھا جائے خلیج میں آج تک سرمایہ دارانہ انقلاب تو برپا نہیں ہوا لیکن سرمایاداری اور ملٹی نیشنل کمپنیاں اوپر اثر رسوخ کے ساتھ موجود ہیں اور ایک بہت بڑی مارکیٹ کی ترسیل بھی موجود ہے۔

تو یہاں پر بات یہ آتا ہے کہ قومی سوال میں اگر طبقاتی استحصال موجود نہیں ہوتا تو کیوں ان امیروں کے بچوں کو موضوع بنا کر پیش نہیں کیا جاتا۔ ان کے گھر اور کھانا پکاتے عورتوں کے تصویر دکھا کر ہمدردی نہیں وصول کیا جاتا، یا پریس کلب کے سامنے آئے روز آنے والے کس طبقے سے وجود رکھتی ہیں۔ لاپتہ افراد میں کس طبقے سے زیادہ لوگ ہیں۔ پوری کی پوری تحریک کا موضوعی عنصر صرف غریب اور استحصال ذدہ طبقہ ہی ہے۔ تو پھر قومی جدوجہد سے طبقاتی نقطہ کو نکالنا غیر منطقی اور ذیادتی ہے اور نا ہی اس سے انکار ممکن ہے۔


بشکریہ: بلوچ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن

بلوچستان میں سیاسی بیداری کا نیا دور

Click here to read in English

سانحہ ڈنک اور اس کے خلاف اٹھنے والی رد عمل سے بلوچستان سیاسی بیداری کے ایک نئے دور میں داخل ہوا۔ عام عوام کی ایک بڑی تعداد خاص طور پر نوجوان جو گزشتہ ایک دہائی پر محیط خوف کے ماحول میں سیاسی عمل سے دور ہو گئے تھے ایک عرصے کے بعد پہلی مرتبہ برمش سے یکجہتی کے نعرے کے ساتھ احتجاجی مظاہروں کی شکل میں سڑکوں پر نکل آئے۔ سیاسی گھٹن کے ماحول سے بیزار نوجوانوں نے روایتی قوم پرست اور شاہ کے وفادار سیاسی جماعتوں کے سہارے کے بغیر ایک موثر احتجاجی تحریک چلا کر عوامی سیاست کو واپس اپنے ہاتھوں میں لینا شروع کیا۔ سیاسی بیداری کا یہ عمل اگرچہ سڑکوں پر اور گلی محلوں میں جاری تھا اس کی گونج سوشل میڈیا پر بھی برابر سنائی دی۔ خواتین کی شمولیت نے اس پورے احتجاجی عمل میں ایک نئی جہت کا اظافہ کر دیا۔ یوں نوجوان، طلبہ اور دانشور طبقہ، خواتین کی واضح نمائندگی کے ساتھ ، پارلیمانی اور غیر پارلیمانی سیاست کرنے والے قوم پرست پارٹیوں سے الگ ایک نئی عوامی سیاسی قوت کی شکل میں سامنے آیا جس کی مثال حالیہ بلوچ سیاسی تاریخ میں نہیں ملتی۔ رہنماؤں کے زاتی مفادات کی بنیاد پر منقسم روایتی قوم پرست سیاست کا حصہ بننے کے بجائے عوامی سیاسی بیداری کی نئی لہر اپنے آپ میں منظم ہوتی ہوئی، نئے نعروں کے ساتھ ایک غیر مرکزی عوامی تحریک کی شکل میں سامنے آئی۔

سانحہ ڈنک اور اس کے ایک مہینے بعد ہی تمپ میں کلثوم بی بی کی شہادت سے اٹھنے والی عوامی سیاسی بیداری کی لہر حیات بلوچ کے سفاکانہ قتل سے ایک نئے دور میں داخل ہوا۔ ڈنک اور تمپ واقع کے رد عمل میں ہونے والے احتجاجی مظاہروں کی نسبت حیات بلوچ کی شہادت کے خلاف عوامی سیاسی رد عمل بلوچستان سے باہر بھی واضح طور پر دیکھنے میں آیا۔ بلوچستان کے تمام چھوٹے بڑے شہروں کے علاوہ ملکی سطح پر مختلف ترقی پسند حلقوں کی جانب سے کراچی، حیدرآباد، لاہور اور اسلام آباد میں بھی احتجاجی پروگرام منعقد کیئے گئے۔ وزیرستان جیسے علاقے جو خود دہائیوں سے ظلم و بربریت کا سامنا کر رہے ہیں وہاں بھی مقامی لوگوں کی طرف سے صدائے احتجاج بلند کیا گیا۔ حالانکہ مقامی انتظامیہ اور فرنٹیئر کانسٹیبلری کی جانب سے عوامی جذبات کو ٹھنڈا کرنے کی بھرپور کوشش کی گئی۔ ایف سی نے حالات کی نزاکت کو بھانپتے ہوئےاپنے ایک اہلکار کو پولیس کے حوالے کر دیاجبکہ پولیس نے معمول کے برعکس فوراََ ہی واقع میں ملوث اہلکار کے گرفتار ہونے کا اعلان بھی کر دیاجس کے بعد حکومتی نمائندوں کی جانب سے مذمتی بیانات آنا شروع ہوئے اور یہاں تک کہ آئی جی ایف سے بھی ورثا کے ساتھ تعزیت کرنے شہید حیات کے گھر پہنچ گئے۔ لیکن ان سب کے باوجود واقع کی نو دن بعد 22 اگست کو ملک گیر احتجاجی پروگرام منعقد ہوئے اور لوگ ہزاروں کی تعداد میں حیات کے ساتھ اظہار یکجہتی کیلئے سڑکوں پر نکلے۔

پے در پے ہونے والے دلخراش واقعات کے خلاف عوامی رد عمل در اصل سیاسی گھٹن سے تنگ عوام میں عدم تحفظ کے بڑھتے ہوئے احساس کا اظہار ہے۔ایک اور برمش کی بے بسی، ایک اور ملک ناز، کلثوم یا پھر حیات جیسے نوجوان کا قتل دیوار پہ لکھا نظر آتا ہے۔ اس ناقابل گریز خطرے کا احساس سیاسی طور پر باشعور نوجوانوں کی ایک نمایاں تعداد کو سیاسی میدان میں دکھیلنے کا سبب بنا جس سے سالوں سے قائم خوف کا حصار بلآخر ٹوٹ گیا۔ برمش کے ساتھ ہمدردی کیلئے بنائی گئی کمیٹیوں سے جو سیاسی ماحول بنا اسے کسی ایک واقعے تک محدود کرنا ممکن نہ تھا اور نہ ہی سیاسی میدان میں فعال کسی گروہ میں اس نئی سیاسی قوت کو اپنے اندر سمونے کی سکت تھی۔

ایک وسیع تر پر امن عوامی تحریک کے مادی حالات اپنی نقطہ عروج تک پہنچتے جا رہے ہیں جس کا اظہار سیاسی و سماجی جبر کے خلاف اٹھنے والے عوامی رد عمل کی شکل میں ہو رہا ہے ۔ ایک پر امن تحریک جو سماج کی نمایاں سیاسی قوت بنے خارج از امکان نہیں۔ اس تحریر میں ہم برمش یکجہتی کمیٹیوں سے شروع ہونے والے عوامی سیاسی بیداری کے اس لہر کا ایک وسیع تر عوامی سیاسی تحریک میں تبدیل ہونے کے امکانات اور ترقی پسند قوتوں کی تاریخی کردار کا جائزہ لینگے۔

عوامی تحریک کیلئے سازگار ہوتے حالات

جرائم پیشہ گروہوں یا بدنام زمانہ ڈیتھ اسکواڈ کے ہاتھوں ملک ناز اور کلثوم کی شہادت ہو یا ایف سے اہلکاروں کے ہاتھوں حیات بلوچ کی شہادت اگر دیکھا جائے تو تینوں واقعات بلوچستان میں جاری شورش سے جڑے ہیں۔ جنرل مشرف کی فوجی حکومت کے دوران شروع ہونے والی سیاسی کشیدگی نے نواب اکبر بگٹی کی شہادت کے بعد جنگ کی شکل اختیار کرلی جو کہ آگے جا کر خوف کے دہائی میں منتج ہوا جہاں جبری اغوا اور مسخ شدہ لاشیں معمول بن گئی۔ ملک ناز اور کلثوم کی شہادت میں ملوث گروہ اسی دوران سامنے آئے جن کا بنیادی مقصد مخالف مسلح تنظیموں کو ختم کرنا تھا۔ اپنے مقصد میں کسی حد تک کامیاب ہونے کے بعد ان گروہوں کو ختم نہیں کیا گیا بلکہ وہ لاقانونیت کے ماحول میں پھلتے پھولتے رہے اور جلد ہی پر امن شہریوں اور خاص طور پر کمزور طبقات پر ٹوٹ پڑے۔

ان گروہوں کے سفاکانہ کاروائیوں کا نشانہ عموماََ بزگر، دہقان اور روزنداری پر گزارہ کرنے والا محنت کش طبقہ یا پھر چھوٹے پیمانے پر زمینداری یا دیگر کم آمدنی والے کاروبار پر گزارا کرنے والا سفید پوش اور نسبتاََ تنگ دست طبقات ہوتے۔ بلوچستان کی مقامی معیشت کا انحصار بنیادی طور پر زراعت، مالداری اور ماہی گیری جیسے کم پیداوار ی شعبوں پر ہے ۔ بارڈر سے منسلک متوازی معیشت مکران سمیت اندرون بلوچستان کیلئے ایک متبادل زریعہ معاش بن چکا ہے ۔ مقامی معیشت میں زبوحالی سے متاثر محنت کش عوام کی کثیر تعداد بارڈر کے غیر مستحکم کاروبار سے وابستہ ہے جہاں بمشکل ہی لوگوں کا گزر بسر ہوجاتا ہے۔ ریاستی معیشت کا کردار عوامی سطح پر سرکاری نوکریوں تک محدود ہے جسے واحد مستحکم زریعہ معاش کی حیثیت حاصل ہے ۔ قدرتی وسائل جن کی وجہ سے بلوچستان عالمی دنیا میں جانا جاتا ہے کبھی بھی مقامی معیشت کا حصہ نہ بن سکے ۔ بلکہ ہمیشہ سے ہی قدرتی وسائل مقامی لوگوں کے استحصال کا سبب بنے جن سے ہونے والی اربوں ڈالر کی پیداوار سے ایک طرف قبائلی بالادست طبقہ اور سیکیورٹی اسٹیبلشمنٹ مضبوط ہوا ہے وہیں غربت کے شکار مقامی محنت کش آبادیوں کیلئے معاشی مواقع مزید کم تر ہوئے اور ان کی حالت مزید ابتر ہوتی گئی۔

ان معاشی سختیوں سے دوچار محنت کش، چھوٹے زمیندار اور کاروباری طبقہ کو اپنے روز مرہ کی زندگی میں کھیتوں پر کام کرتے ہوئے، بازاروں میں دوران کاروبار اور یہاں تک کے فارغ اوقات میں اپنے گلی محلوں میں یا تفریح گاہوں میں نہ صرف سیکیورٹی فورسز کا بلکہ ان جرائم پیشہ گروہوں اورڈیتھ اسکواڈز کا بھی روزانہ کی بنیاد پر سامنا کرناپڑتا ہے جہاں کسی بھی لمحے کوئی سانحہ رونما ہونے کے امکان موجود ہوتے ہیں۔ یہی کچھ حیات اور ان کے والدین کے ساتھ ہوا۔ ہر وہ دہقان جو روزانہ کھیتوں پر کام کرنے جاتا ہے، ہر مچھیرا جو سمندر میں رزق کی تلاش میں نکلتا ہے اور ہر دکان دار جو کاروبار کیلئے بازار کا رخ کرتا ہے وہ ہر لمحہ اسی خوف سے گزر رہا ہوتا ہے۔

بلوچستان کا مقامی بورژوازی یا بالادست طبقہ جو کہ قبائلی ایلیٹ اور دولت کا وسیع زخیرہ رکھنے والے کاروباری طبقے، سیاستدان اور بیوروکریٹس پر مشتمل ہے اس شورش زدہ صورتحال میں خصوصی رعایت رکھتے ہیں جنہوں نے عوام کی محنت کی کمائی کا بڑا حصہ ہتھیا کر یا پھر ان کے ترجمانی کے نام پر سیاسی زرائع سے دولت جمع کر کے اپنے دفاع کیلئے لشکر کھڑے کیئے ہیں۔ ان کے پاس اتنے مسلح لوگ ہمہ وقت موجود ہوتے ہیں جو پر تشدد واقعات میں ان کی ذاتی حفاظت کر سکیں جبکہ عام عوام انہی واقعات میں آسانی سے نشانہ بن جاتے ہیں۔ مقامی بالادست طبقہ بیک وقت مسلح تنظیموں اور سیکیورٹی فورسز کے تشدد سے اپنے محافظوں کی مسلح قوت یا پھر بالادست طبقے میں اپنی حیثیت کی بنیاد پر اپنی حفاظت کرتا ہے۔ حیات شاید بچ سکتا تھا اگر اسے سول سروسز کا امتحان پاس کرکے بیوروکریسی کے توسط سے مراعات یافتہ طبقے کا حصہ بننے کا موقع ملتا لیکن وہ ایک محنت کش کا بیٹا تھا جنہیں بم دھماکوں کے باوجود اپنے کھیتوں میں رہ کر محنت کرنا تھا۔

گزشتہ تین دہائیوں سے یہی بالادست طبقہ مختلف قوم پرست پارٹیوں کی قیادت کی شکل میں بلوچ سیاست پر براجمان ہے۔ اس دوران یہ طبقہ سردار نوابوں کی اولادوں اور متوسط طبقے کے کاروباری شخصیات اور بیوروکریٹس کی حیثیت سے برائے راست سرمایہ دار بنا یا پر سرمایہ دارانہ معیشت میں کمیشن خوری کے زریعے حصہ دار بن گیا۔ آج ان نام نہاد قوم پرست سیاست دانوں کے پاس دولت کے انبار لگے ہیں جو کہ نہ صرف مقامی طور پر جائیدادیں رکھتے ہیں بلکہ خلیجی ممالک سمیت دنیا کے دوسرے حصوں میں عالمی سرمایہ داروں کے ساتھ ان کے شراکت داریاں چل رہی ہیں۔ ان کا بیشتر سرمایہ بیرون ملک منڈیوں میں لگا ہوتا ہے جس کا اظہار مقامی طور پر صرف ان کے اولاد کی شاہانہ طرز زندگی میں نظر آتا ہے۔ ان بورژوا سیاستدانوں کی اولادیں بڑی شان سے اپنی طبقاتی برتری اور دولت کی نمائش ایک ایسے سماج میں کرتے ہیں جو اپنے آپ میں معاشی بدحالی کی ایک مثال ہے جہاں عوام کی اکثریت بنیادی سہولیات سے محروم سماجی اور سیاسی انتشار کی سی کیفیت سے دوچار ہیں۔ بلوچستا ن کا بورژوازی جس کی جڑیں قوم پرستی کی سیاست میں پیوست ہیں کبھی بھی اپنے معاشی اور سماجی مراعات کا اعتراف نہیں کرتے ۔ بلکہ ان کی سیاست کا زور اسی تصور پر قائم ہے کہ بلوچ اور بلوچستان کا استحصال قومی بنیاد پر ہو رہا ہے جس سے وہ بھی اتنے ہی متاثر ہیں جتنا کہ معاشی طور پر زبوں حالی کا شکار اور سماجی طور پر انہی کے زیر دست ایک عام بلوچ۔

بلوچستان کے زیر دست طبقات کا سیاسی طور پر باشعور حصہ تاریخی طور پر انہی بورژوا قیادت کے ساتھ وابستہ رہا ہے جنہوں نے ہر دور میں اپنے طبقاتی مفادات کو اولیت دیتے ہوئے عوامی توقعات کو پس پشت ڈالا ہے۔ قوم پرست قیادت کی اسی حقیقی کردار کے سامنے آنے کے سبب حالیہ برسوں میں زیر دست طبقات اور مراعات یافتہ قومی قیادت کے درمیان وابستگی ختم ہو کر بیگانگی کی شکل اختیار کرتا جا رہا ہے۔ یہ بیگانگی قومی سیاست میں واضح طور پر نظر آتا ہے جہاں عوام کی اکثریت بلعموم سیاسی عمل سے بیگانگی کا شکار ہوتے جارہے ہیں۔ قوم پرست پارٹیوں کی گرفت سے آزاد طلبا تنظیموں، سول سوسائٹی اور عوامی یکجہتی کے مقامی تنظیموں کی شکل میں مختلف غیر روایتی بنیادوں پر لوگوں کا اکھٹا ہونا سابقہ سیاسی قوتوں سے اسی بیگانگی کا اظہار ہے۔

عوامی سیاسی یکجہتی

گزشتہ دہائی کے خوف کے ماحول میں ایک نئی نسل پروان چھڑ چکی ہے جو اب طلبہ اور نوجون سیاست کا ایک فعال حصہ ہے۔ نئی نسل جس کا حیات بلوچ حصہ تھے سیاسی تنازعات سے آگے سوچنا چاہتے ہیں۔ وہ اپنے معاشی حالات، بوسیدہ سماجی ڈھانچے اور قومی قیادت کے دیوالیہ پن کا سیاسی ادراک رکھتے ہیں۔ اپنے تعلیمی اداروں میں، کھیتوں میں، گلی محلوں میں سکیورٹی کے نام پر اسلحہ برداروں کی موجودگی سے اکھتائے ہوئے نوجوانوں کیلئے مزید کسی ڈیتھ اسکواڈ کے خوف کے سائے میں رہنا نا ممکن ہو چکا ہے۔بلوچستان کا نوجوان عوامی جذبات بھڑکانے والے موقع پرست سیاسی قیادت کے پیچے چلنے سے انکار کرتے ہوئے ایک آزاد اورباوقار زندگی گزارنا چاہتے ہیں۔ یہی سیاسی قوت وہ خام مال ہے جس سے شورش زدہ ماحول میں ایک نیا سماجی و سیاسی تحریک جنم لے سکتا ہے۔

مکران جہاں مزکورہ تینوں افسوسناک واقعات رونما ہوئے وہاں پر امن سیاسی احتجاج کی نئی لہر کی قیادت سول سوسائٹی کر رہی ہے جس میں طلبہ و طلبات ایک فعال کردار ادا کر رہے ہیں۔ بلوچستان میں سول سوسائٹی نسبتا نیا مظہر ہےجو کہ شہری آبادی کے پھیلاؤ اور پڑے لکھے طبقات میں بڑھتے شہری حقوق کے ادراک کے ساتھ ساتھ سامنے آیا ہے۔ شہری مراکز میں انتظامی اداروں کی مفاد عامہ سے مکمل لاتعلقی اور کرپشن کی وجہ سے تربت اور پنجگور جیسے مرکزی شہر پانی، بجلی اور گیس جیسے بنیادی سہولیات سے محروم ہیں ۔تعلیم یافتہ نوجوانوں اور دانشور ادیبوں کا مختلف سماجی تنظیموں میں متحرک ہونا انہی بنیادی مسائل پر عوامی سیاسی رد عمل کا ابتدائی اظہار ہے۔ ایسے حالات میں جبکہ عوامی مسائل کے حل کیلئے حقیقی سیاسی سرگرمیوں پر مختلف قدغنیں ہیں سول سوسائٹی ایک متحرک سیاسی قوت کے طور پر سامنے آیا جو سماج کے مختلف پرتوں کواجتماعی مسائل کے حل کیلئے وقتی طور پر ہی سہی لیکن ایک مشترکہ پلیٹ فارم پر لانے کا سبب بنا۔

ڈنک واقع کے بعد پہلی مرتبہ سیاسی مسائل جنہیں عموماً نظر انداز کر دیا جاتا تھاسول سوسائٹی کے ایجنڈے کا حصہ بن گئیں ۔ البتہ انفرادی واقعات کے رد عمل میں سیاسی طور پر باشعور طبقات کو متحرک کرنے میں اہم کردار رکھنے کے باوجود سول سوسائٹی عوامی رد عمل کو ایک با اثر تحریک میں تبدیل کرنے سے قاصر رہی۔ سیاسی میدان میں سول سوسائٹی کا محدود کردار برمش یکجہتی کیمپین میں واضح ہوا جہاں بے مثال عوامی رد عمل ایک پائیدار سیاسی تحریک میں منتقل نہ ہو سکا۔ اپنی مخصوص ساخت میں سول سوسائٹی کی افادیت مجرمانہ واقعات میں ملوث قوتوں کی مذمت اور متاثرین کے ساتھ ہمدردی تک ہی محدود ہے۔

ایک ترقی پسند تحریک کی ضرورت

معاشی و سیاسی جبر کی حکومت اور اس سے پیدا ہونے والی خونی تنازعہ کا حل سماج پر سیاسی اختیار کا مسئلہ ہے اور اس وقت تک حل نہیں ہو سکتا جب تک جبر کے شکار عوام ایک انقلابی پروگرام کے تحت منظم ہوکر سیاسی قوت اپنے ہاتھوں میں نہیں لیتے۔ ایک منظم ترقی پسند لائحہ عمل کے بغیر سول سوسائٹی کی سیاسی قوت بہ آسانی روایتی رجعتی گروہوں کے ہاتھوں میں مرکوز ہو سکتی ہے جن کا مقصد عوامی سیاسی قوت کو اپنے گروہی مفادات کے حصول کیلئے استعمال کرنا ہے۔ عوام کی سیاسی قوت کو یکجا کر کے اسے ایک پر امن سیاسی تحریک کی شکل میں منظم کرنا ان قوتوں کے ہاتھوں ممکن نہیں جن کی سیاسی قوت کا دار و مدار جبر کے شکار عوام کی حمایت کے بجائے اشرافیہ یا پھر عالمی سرمایہ داروں کی خوشنودی حاصل کرنے پر ہو۔

عوام کر متحد اور منظم کرنے کیلئے ان ترقی پسند قوتوں کو آگے آنا ہوگا جو سماج میں رائج بالادستی کے ڈھانچوں کا حصہ بننے کے بجائے عوامی سیاسی قوت کی بنیاد پر سیاسی و سماجی بالادستی اور اس سے پیدا ہونے والی جبر کے مکمل خاتمے سماجی برابری اور انصاف پر یقین رکھتے ہوں۔ ترقی پسند قوتوں کی یہ تاریخی زمہ داری بنتی ہے کہ وہ آپس میں متحد و منظم ہو کر عوام میں اپنی جڑیں مضبوط کریں اور ایک ایسے عوامی تحریک کی آبیاری کریں جس کی قوت اور قیادت بالادست طبقات یا عالمی سرمایہ داروں کے نمائندوں کے بجائے عوام کی اپنے ہاتھوں میں ہو۔

بلوچ عورت پر جبر کے خلاف امتیازی رد عمل

بلوچستان میں جبر کے صورتحال کی موجودگی عوامی شعور کا حصہ بن چکی ہے ایسے میں عالمی یوم خواتین پر جہاں دنیا بھر میں عورتوں کو درپیش مخصوص صنفی امتیاز کے خلاف ترقی پسند قوتیں بر سر احتجاج ہیں وہیں بلوچستان میں عورتوں کو در پیش پدرشاہانہ صنفی جبر کے خلاف صنفی شعور بیدار ہونا اور اس کے خاتمے کیلئے عورتوں کا صدائے احتجاج بلند کرنا ایک فطری بات ہے۔ البتہ قومی، معاشی، سیاسی و سماجی جبر کی مختلف صورتوں کی بیک وقت شدت کے ساتھ موجودگی میں جبر کی کسی ایک صورت کے پیچھے باقی صورتوں کو رد کرنا نہ صرف عین ممکن ہے بلکہ مختلف سیاسی طبقہ ہائے فکر اس بات پر قائل بھی ہیں کہ سیاسی پیچیدگیوں سے بچنے کیلئے جبر کی ایسی صورتوں کو نظر انداز کیا جا سکتا ہے جو براہ راست سیاسی مفادات کے حصول میں کارآمد نہیں ہیں یا جنہیں وہ ثانوی نوعیت کے جبر کا درجہ دیتے ہیں۔

لیکن جبر تو بالآخر جبر ہی ہے چاہے اس کی صورت کچھ بھی ہو۔ ظاہر ہے جو جس قسم کے جبر کا براہ راست شکار ہوتا ہے یا ہوتی ہے اس کیلئے یقینآ وہی اولیت رکھتی ہے، جبکہ جبر کی باقی تمام صورتیں اس کے لیے شاید ثانوی ہوں۔ یہ تصور فرد کی حد تک تو قابل فہم بھی ہے اور قدرتی بھی خاص طور اس حالت میں جب ایک شخص جو خود پر ہونے والے جسمانی، ذہنی یا سماجی و سیاسی جبر کا شاید وسیع تناظر میں تجزیہ کرنےکی کسی نہ کسی وجہ سے صلاحیت نہ رکھتا ہو۔ لیکن، اگر یہی عمومی نکتہ نظر کسی سیاسی گروہ کے بیانیہ کا حصہ بن جائے تو وہ تشویش ناک بن جاتا ہے۔ بلوچ عورت پر ہونے والا صنفی جبر جس کا سامنا انہیں صرف اور صرف عورت ہونے کے وجہ سے ہوتا ہے جبر کی ان صورتوں میں سے ایک ہے جسے قومی جبر کی اولیت پر یقین رکھنے والے سیاسی حلقے ثانوی نوعیت کا جبر قرار دیکر ایک سنگین سماجی سوال پر اپنے موقف میں ابہام کو جواز فرائم کر تے ہیں۔

جیسا کہ مارکس اور اینگلز اپنے تحریر جرمن آئیڈیالوجی میں کہتے ہیں کہ سماج میں سیاسی ڈھانچے اور سیاسی خیالات مخصوص مادی حالات کی پیداوار ہوتے ہیں۔اگر ہم اس پچھلی بات سے اتفاق رکھتے ہیں تو اگلا سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آخر وہ کون سے حالات ہیں جن سے ایسی قوتیں جنم لے رہی ہیں جو کسی ایک قتل ہونے والے کے لواحقین کو کہتے ہیں کہ آپ کے بین کی آواز اونچی نہ ہو، کیوں کے تم جس جبر کا شکار ہوئے ہو اس کی نوعیت ثانوی ہے، جبکہ تمھارے پڑوسی کا قتل ایک زیادہ اہم اور فوری نوعیت کے جبر کے سبب ہوئی ہے۔ کسی مخصوص جبر کے خلاف امتیازی رد عمل جہاں مختلف سیاسی طبقہ ہاے فکر کے درمیان غیر ضروری مقابلہ بازی کو خوراک فراہم کرتا ہے، وہیں یہ سماج میں ہونے والے جبر کی کثیر الجہتی کردار کو نظر انداز کر دینے والے رویوں کا سبب بنتا ہے جس سے ایک طرف جبر کو اس کی کلیت میں دیکھنا اور سمجھنا مشکل ہو جاتا ہے، تو دوسری طرف وہ مختلف النوع محکوموں کے آپسی اتحاد کو مشکل بنا دیتی ہیں۔ جس سے وہ گروہوں میں بٹے رہتے ہیں اور نتیجہ خیز صف بندیاں تشکیل دینا مشکل تر ہوتا جاتا ہے۔ نیز، اس۔ ’یکسوئی‘ کا ایک خطرناک پہلو یہ بھی ہےکہ اس طرح کے رجحانات انفرادی سیاسی رویوں اور سیاسی جماعتوں کے طرز عمل میں مطلق العنانیت کو جنم دینے کے بیج بھی اپنے اندر رکھتے ہیں ۔

زمینی حقائق کی اگر بات کی جائے تو بلوچستان میں خودکشیاں عام ہیں اور اپنے زندگیاں لینے والوں کی اکثریت نوجوانوں اور خاص طور پر نوجوان لڑکیوں کی ہے جن کے مرنے کی خبر تو عام ہوتی ہے لیکن موت کن حالات میں ہوئی ہے وہ ایک گھٹن زدہ ماحول میں دب جاتی ہے۔ یہ ایک ایسے ماحول کی بات ہو رہی ہے جہاں کسی انسانی زندگی سے زیادہ کسی خاندان کا سماجی رتبہ اہم ہے۔ اور عام طور پر اس حقیقت کو ’عزت‘ اور ’رواج‘ کا غلاف چڑھایا جاتا ہے۔ چھوٹی عمر میں ہی شادی طے کی جاتی ہیں اور بلوغت کی علامات ظاہر ہونے کی دیر ہوتی ہے کہ لڑکیاں رخصت کر دی جاتی ہیں۔

جہاں شادیاں نہیں ہو پاتی ان گھروں میں ناچاقیوں کے قصے عام ہیں۔ مردوں کی سماجی بیٹھکوں سے دور جہاں عورتوں کی مخصوص بیٹھکیں لگتی ہیں وہاں سماجی کشیدگی سے پیدا ہونے والے ناگوار تجربات کی جو باتیں ہوتی ہیں ان کا مرد آپس میں ذکر کرنا بھی معیوب سمجتے ہیں کیونکہ انہیں لگتا ہے کہ گھریلو ناچاقیوں کی باتیں کسی حقیقی صورتحال کے اظہار کے بجائے عورتوں کی لگائ بجھائ ہیں اور مرد اپنے بیٹھکوں میں عموما بازار کی باتوں اور لڑائی جھگڑوں کے قصوں سے آگے نہیں جاتے اور اگر کبھی عورت کا ذکر کر بھی لیں تو گفتگو ’حسن کی تعریفوں‘ [ اگر وہ گفتگو شایستہ زبان میں ہو رہی ہو!] یا پھر عورت مخالف صنفی تعصبات تک ہی محدود ہوتی ہے۔ کسی لڑکی کی مرضی کے بنا رشتہ یا شادی کو اکثریت اب تک مسئلہ ہی نہیں سمجھتے جبکہ نوجوان لڑکیوں کی اکثریت گھر کے کاموں میں اس قدر الجھی ہوئی ہوتی ہیں کہ ان کیلئے مخصوص دائروں سے باہر سماجی و سیاسی تجربات نہ ممکن ہو جاتی ہیں۔ اس کے علاوہ، چھوٹے شہر جہاں پر آبادیاں تیزی سے بڑھ رہی ہیں ان کے اندر لڑکیوں کے باہر نکل کر کسی سرگرمی کا حصہ بننے کے مواقع نہ ہونے کے برابر ہیں، سچ یہ ہے کہ گھر سے باہر کا ماحول ایک عام نوجوان لڑکی کے لیے ہراساں کر دینے والا ہے۔

ان اسباب کے باوجود اگر کسی لڑکی کو اپنے ارد گرد تنگ دائروں کی موجودگی کا شعور آجائے اور وہ اس گھٹن سے نکلنے کیلئے پڑھنے، ملازمت کرنے یا خود سے مختلف کسی خاندان، نسل اور معاشی حیثیت کے لڑکے سے شادی کی خواہش کر بیٹھیں تو وہاں کا مظلوم مرد بھی اکثر سماجی بندھنوں میں قید ہو کر خود سے، اپنے اولاد سے بیگانہ ہو کر سماجی جبر کی ناگزیریت پر خاموش ہو جاتے ہیں یا پھر اپنی سماجی حیثیت برقرار رکھنے کیلئے اپنے ہی اولاد کے خلاف جارحیت پر اتر آتے ہیں۔ کافی حد تک یہ صورتحال نو آبادیاتی اثرات کی وجہ سے بھی ہے جس کے سبب بلوچستان میں ابھی تک وہ انفراسٹرکچر یا ڈھانچہ قائم نہیں ہو سکا جس سے سماجی رویے ترقی کرتے۔

یہ عین ممکن ہے ہم میں سے بہت سی عورتیں اور مرد سماج کے اس حصے سے تعلق رکھتے ہوں جہاں مخصوص حالات میں ہمارے والدین نے اپنی جوانی میں ہی سماجی جبر کا سامنا کیا ہو اور کسی نہ کسی طریقے سے اس جبر کو پار کر کےخاندان اور آس پاس کے لوگوں کی مخالفت کے باوجود اپنے اولاد کو ایک نسبتاً آزاد ماحول فراہم کرنے میں کامیاب ہوئے ہوں۔ لیکن ابھی تک بلوچستان میں یہ حقیقت انفرادی تجربات سے نکل کر ایک مجموعی سماجی حقیقت نہیں بن پائی ہے جس کے سبب سماجی و معاشی آزادی کا تجربہ عورت کی اکثریت کیلئے ایک سہانے خواب کے سوا کچھ نہیں جس کی حصول کیلئے انہیں اپنے خاندانی رشتے، والدین کی محبت اور یہاں تک کہ زندگیاں بھی قربان کرنا پڑ سکتی ہیں۔ آزادی کی انفرادی احساس کو ہم اجتماعی جبر کی اس صورت کی حقیقت کو رد کرنے کیلئے بطور جواز استعمال نہیں کر سکتے جس سے لوگوں کی زندگیاں وابستہ ہیں جس کی بنیاد پر ان کی مستقبل کا تعین کیا جاتا ہے اور ایسے رشتے بنتے ہیں جنہیں ختم کرنے کی نسبت نوجوان لڑکیاں اپنی زندگیوں کو ختم کرنا زیادہ آسان سمجھتی ہیں۔

سیاسی جبر کا شکار ایک بلوچ مرد لاپتہ ہوتا ہے، تشدد برداشت کرتا ہے اور قتل ہوجاتا ہے یا پھر کسی لاپتہ یا مقتول کے والد یا عزیز کی شکل میں زندگی بھر ازیتیں سہتا ہے۔ ایک جیسے سیاسی جبر کا شکار بلوچ عورت اگرچہ عموما لاپتہ نہیں ہوتا یا ایک جیسے وجوہات کی بنا پر جسمانی تشدد نہیں سہتا اور قتل نہیں ہوتا لیکن ان کے حصے میں جتنی ازیتیں آتی ہیں ان کے گھر کے مردوں کے حصے میں بھی اتنی ہی ازیتیں آتی ہیں ۔سیاسی جبر کے خلاف کھڑے ہونے والے کسی مرد کی نسبت کسی عورت کی جد و جہد کی اہمیت کا جب ہم اقرار کرتے ہیں تو ہم اس حقیقت کو تسلیم کر رہے ہوتے ہیں کہ یہ مخصوص سیاسی کردار رائج الوقت سماجی قوائد سے مطابقت نہیں رکھتا اس وجہ سے وہ اہم ہے۔ سیاسی جبر کی ازیتوں میں برابر کی شریک عورت کی سماجی جبر میں تنہائی وہ حقیقت ہے جو بلوچ عورت کو فطری طور پر مردوں کی بالادستی میں قائم ان روایتوں سے باغی بناتی ہے جو سماج کو مجموری طور پر گھٹن زدہ بناتے ہیں۔

مارکسی ماہر تعلیم پاؤلو فریرے اپنے کتاب تعلیم اور مظلوم عوام میں کہتے ہیں کہ بالادستی کے ڈھانچے میں جہاں انسانوں کے درمیان معاشی، سماجی و سیاسی رشتے انسانوں کی انفرادی آزادی اور برابری کے بجائے ایک فرد کے ہاتھوں دوسرے فرد کے استحصال پر مبنی ہو وہاں استحصال زدہ فرد یا طبقے کا تاریخی فریضہ بن جاتا ہے کہ وہ نہ صرف خود کو اس استحصال کے نظام سے آزاد کرے بلکہ اس استحصال کر برقرار رکھنے والے ڈھانچے کو ختم کر کے وہ استحصال کرنے والے فرد یا طبقے کو بھی اس کے اپنے جبر سے آزادی دلائے۔ اگر ہم اس بات سے اتفاق رکھتے ہیں کہ بلوچ مرد اور عورت سماجی و سیاسی جبر کا یکساں شکار ہیں تو ہم اس حقیقت سے بھی انکار نہیں کر سکتے کہ بلوچ مرد اور عورت کو اس جبر کے خلاف جد و جہد بھی یکساں بنیادوں پر کرنا ہوگا جبکہ عورتوں کو درپیش امتیازی صنفی جبر جس کا بلوچ مرد کو سامنا نہیں ہے اس کا خاتمہ عورتوں کی قیادت میں عورتوں کی ہی جد و جہد سے ممکن ہے ۔ یہ بلوچ عورت پر ایک اضافی جبر ہے جس کی حقیقت کو جھٹلایا نہیں جا سکتا۔

معاشی اور سیاسی جبر کے برعکس سماجی جبر کا سامنا بلوچ عورت کے علاوہ نچلے طبقات کے ان مردوں کو بھی کرنا پڑتا ہے جنہیں سماج پر بالادست مراعات یافتہ طبقے کی جانب سے نسلی طور پر کم تر قرار دیا جاتا ہے۔ لیکن نچلے طبقات کے مردوں کے برعکس جن کیلئے سماجی حیثیت سے محرومی ایک طبقاتی مسئلہ ہے عورت کیلئے سماجی جبر ایک طبقاتی مسئلہ ہونے کے ساتھ صنفی مسئلہ بھی ہے جہاں معاشی حیثیت کے علاوہ خاص طور پر عورت ہونے کی وجہ سے ان کیلئے سماجی دائرہ محدود ہوجاتا ہے۔ نچلے طبقات کے برعکس بلوچ مردوں کی اکثریت معاشی اور سیاسی جبر کے باوجود صنفی جبر سے نہ صرف آزاد ہے بلکہ اپنے روز مرہ میں پدرشاہانہ رویوں کی شکل میں اس جبر کو برقرار رکھے ہوئے ہیں۔

بلوچ عورتوں میں صنفی شعور اور تنظیم کاری جبر کی مختلف شکلوں کے خاتمے کی نوید ہے جبکہ صنفی امتیاز کے خاتمے کی جد وجہد سے انکار در حقیقت عورت کے مجموعی سیاسی کردار سے انکار ہے جو صنفی جبر کے ساتھ ساتھ جبر کی دوسری تمام شکلوں کے خلاف جد و جہد میں بھی عورت کے کردار کو محدود کر دیتی ہے۔ ایسے سماجی ڈھانچے جو صنفی، نسلی اور معاشی بنیادوں پر استحصال کے شکار عوام کی سیاسی قوت کے اظہار کو ناممکن بناتے ہیں ان کے خاتمے کے بغیر ایک بہتر سماج کا تصور نا ممکن ہے۔ بلوچ عورت کو درپیش یکساں معاشی و سیاسی جبر کے علاوہ صنفی بنیادوں پر سماجی جبر سے انکار اشرافیہ اور متوسط طبقے کے اس حصے کیلئے ہی قابل قبول ہوسکتا ہے جن کی سیاسی بقا عوامی قوت کے استحصال پر مبنی ہو نہ کہ ان ترقی پسند سیاسی طبقات کیلئے جو آزادی کے اس مفہوم پر یقین رکھتے ہیں جس کی بنیاد سماج کے پسے ہوئے طبقات کی انفرادی معاشی، سیاسی و سماجی برابری پرہو۔

نظریہ انحصار پذیری اور عالمی معاشی نابرابری

Click to read in English

عبدلناصر

یہ مضمون بین الاقوامی تعلقات عامہ کی مد میں نظریہ انحصار پذیری* کی مناسبت سے لکھا گیا ہے کہ کیا نظریہ انحصار پذیری موجودہ ترقی یافتہ اور ترقی پذیر ممالک کے بیچ غیر متوازی معاشی حالات اور معاملات کو سمجھنے میں کارآمد ہے؟

بین الاقوامی تعلقات عامہ پر ہمیشہ سے مغرب کی ایک چھاپ رہی ہے جس بنا پر عالمی مسائل کو ہمیشہ مغرب کی نقطہ نظر سے دیکھا جاتا رہا ہے، جس کے نتیجے میں محکوم و مظلوم اقوام کی آواز، خدشات و تحفظ ہمیشہ دب کر رہ گئیں۔

نظریہ انحصار پزیری لاطینی امریکہ کے مفکرین کی طرف سے دیا گیا ایک مقبول نظریہ جو مغربی نقطہ نظر، مغرب سے جڑی جدیدیت اور ترقی کے بیانیے کا بطور ایک تنقید ابھر کر سامنے آئی۔ انیس سو پچاس سے انیس سو اسی کی دہائی تک ڈی کالونائزیشن کے نتیجے میں جب نئی ریاستیں بننا شروع ہوئیں تو پہلے پہل ان ریاستوں میں انیسویں صدی کے مغرب کی نسبت تیز ترین معاشی ترقی دیکھنے کو ملی، اس بناء پر یہ خیال کیا جانے لگا کہ جدیدیت ایک آفاقی مظہر ہے جسے اپنا کر قدیم سماج ترقی کر سکتے ہیں۔ اس بیانیے میں ایک بنیادی قضیہ یہ تھا کہ ترقی کو براہ راست مغربی اقدار مغربی فکر اور طرز عمل سے جوڑ کر غیر مغربی نقطہ فکر سے قطع نظر کیا جاتا رہا۔

بقول آندرے فرینک بیشتر مؤرخین کے مطالعے کا محور ترقی یافتہ ممالک رہی، جبکہ نوآبادیات زدہ ترقی پذیر ممالک پر نہایت قلیل توجہ مبزول کیا گیا۔ ترقی پذیر ممالک کے نو آبادیاتی تجربوں سے قطع نظرایک مغالطہ یہ بھی ہے کہ ترقی یافتہ اور ترقی پذیر ممالک کے تاریخی تجربوں کو ایک ہی کسوٹی میں تولہ جاتا ہے جبکہ آندر فرینک کے بقول پسماندگی ایک آفاقی مظہر نہیں اور نہ ہی آج کے ترقی یافتہ سماج پہلے کبھی پسماندہ رہی ہیں۔ اپنے تاریخی تحقیق کی بنا پر آندرے فرینک یہ کہتے ہیں کہ موجودہ پسماندگی ترقی یافتہ اور ترقی پذیر ممالک کے بیچ معاشی اور دیگر تاریخی معاملات کا نتیجہ ہے اور یہ غیر متوازی معاملات عالمی سطح پر سرمایہ دارانہ نظام کا ایک اہم جزو ہیں جس میں پسماندہ ممالک ترقی یافتہ ممالک کو خام مال کے ساتھ ساتھ سستی انسانی محنت بھی مہیا کرتی ہیں جس سے ترقی یافتہ ممالک زائد سرمائے کا گڑھ بن جاتی ہیں۔ اس کے برعکس سرمایہ اور منافع پسماندہ ممالک کو سرمایہ دار ممالک کے معاشی مفادات اور منشا کے مطابق مہیا کی جاتی ہیں۔ یہ کہنا بے جا نہیں ہوگا کہ سیاسی اور معاشی طاقت سرمایہ دار ممالک کے ہاتھوں کا کھلونا ہے۔ یہ وہ پہلو ہے جسے مارکسی نکتہ نظر میں سامراجیت کہتے ہیں۔

نظریہ انحصارپزیری کے مرکزی دعوٰے

پسماندگی ایک ایسی نوعیت ہے جس میں وسائل تیسری دنیا کے ممالک سے نکالنے کے باوجود بجائے وہاں بروئے کار لانے کے ترقی یافتہ ممالک کے مفاد میں استعمال ہوتی ہیں۔

یہ نظریہ باہر سے مسلط کردہ اصولوں کے بجائے وسائل کے استعمال کی متبادل طریقوں پر زور دیتی ہے۔

اس نظریے کے مفکرین ہر ملک کے معاشی مفاد کی بات کرتے ہیں اور ان کا ماننا ہے کہ قومی مفاد غربت اور پسماندگی دور کیئے بغیر حاصل کرنا ممکن نہیں۔

غاصب ریاستیں تیسری دنیاکے ممالک میں وسائل کی لوٹ کھسوٹ نہ صرف خود کرتی ہیں بلکہ وہاں موجود اشرفیہ اور برسراقتدار طبقہ اپنے مفادات کے لئے بھی اس لوٹ کھسوٹ میں ان کی معاونت کرتا ہے ان دونوں طبقوں کے آپسی مفادات ایک دوسرے سے مشروط ہیں جو انحصار پذیری کا موجب بنی ہوئی ہیں۔

نظریہ انحصار پذیری اور موجودہ دور

اگر دیکھا جائے تو طبقاتی فرق اور نابرابری آج بھی واضح نظر آتی ہے۔ ‏بقول ڈوس سینٹوس بین الاقوامی تجارتی تعلقات اور مارکیٹ میں سرمایہ داروں کی اجارہ داری ہے جس میں پیداوار کا زائد حصہ سرمایہ داروں کے کھاتے میں جاتا ہے جس کے نتیجے میں پسماندہ ممالک ان سرمایہ دار ممالک کا مقابلہ نہیں کر پاتے۔ نہ برابری کی یہ لکیر کسی نہ کسی شکل میں اب بھی پائی جاتی ہے جیسے کہ پسماندہ ممالک کے محصولات پر عائد پابندیاں، عالمی مارکیٹ میں بنیادی اشیاء کی قیمتوں کا گھٹنا، یہ وہ عوامل ہیں جن سے غریب ممالک بری طرح متاثر ہو رہی ہیں۔ ڈوس سنٹوس کے بقول انحصار کے اس آپسی رشتے میں معاشی معاملات کی ڈُور حاکم ریاستوں کے ہاتھ میں ہوتی ہے اور اپنے فائدے اور منافع کی خاطر یہ حاکم ریاست معاشی معاملات سود کی بنیاد پر طے کرتی ہیں جو ان کی گرفت کو پسماندہ ممالک پر مزید مضبوط کرتی ہے۔

نظریہ انحصار پذیری کے مطابق جب یہ پسماندہ ممالک عالمی سرمایہ دارانہ نظام کا حصہ بنتی ہیں تو بیرونی سرمایہ ان کے معاشی وسائل سمیت دیگر معاملات کو اپنے قابو میں کرتی ہے جس سے پسماندہ ممالک ترقی کے بجائے حاکم ریاستوں کے مفادات کی تکمیل کا باعث بنتی ہیں۔

ان عالمی نابرابریوں کا ایک دوسرا پہلو ہمیں فنی اور صنعتی انحصار کی صورت میں ملتا ہے جن پر حاکم ریاستوں کی اجارہ داری ہے اور وہ اس کے ذریعہ پسماندہ ممالک کی صنعت کو اپنے مفادات کے مطابق ڈھال دیتی ہیں۔اس معاملے میں ان پسماندہ ممالک کو ٹیکنالوجی کی ترسیل بھی حاکم ریاستوں کے لئے منافع بخش ہوتا ہے، کیونکہ تیسری دنیائی ممالک کے لئے اس ٹیکنالوجی کا حصول ممکن نہیں ۔ بعض اوقات ان پسماندہ ممالک میں ٹیکنالوجی کی ترسیل بہت حد تک محدود کی جاتی ہے جو کہ ان ممالک میں صنعتی زبوں حالی کا موجب بن کر مزید پسماندہ ممالک کو سرمایہ دار ممالک کےسامنے زیر کرتا ہے۔ امیر ممالک اپنے سرمائے کی وجہ سے ہی جدید ٹیکنالوجی اور ایجادات کے اہل ہیں خواہ وہ ڈیجیٹل ٹیکنالوجی ہویا طِب سے متعلق، پسماندہ ممالک انہی حاکم ریاستوں کی نظر کرم پر ہیں۔

نظریہ انحصار پذیری اور عالمی مالیاتی بحران

کارل مارکس نے سرمایہ داری کو ایک ترقی پسند تاریخی مرحلے کے طور پر دیکھا جو بالآخر اندرونی تضادات کی وجہ سے جمود کا شکار ہوگا اور اس کی جگہ سوشلزم لے گی۔ تاریخ کا دقیق مطالعہ کیا جائے تو یہ بات عیاں ہوتی ہے کہ موجودہ نظام کے انسانی تجربے تلخ ثابت ہوتی نظر آئیں گی خواہ وہ 1930 کا عالمی مالیاتی بحران ہو یا پھر اس سے بھی ہیبتناک 2008 کا مالیاتی بحران۔ ان جیسے کئی معاملات نظریہ انحصار پزیری اور اس نظریے کے مفکرین کے دعووں کو صحیح ثابت کرتی ہیں۔ عالمی مالیاتی بحران نے سرمایہ دار اور پسماندہ ممالک کو بری طرح متاثر کیا ہے اور ان ممالک کے بیچ ایک بڑی خلاء پیدا کی ہے۔

اب جبکہ بڑے مالیاتی ادارے سرمایہ دارممالک کے زیر اثر ہیں تو اس بیچ پسماندہ ممالک کو بوقت ضرورت سرمائے کی رسد میں بڑی مشکل کا سامنا ہوتا ہے کیونکہ مالیاتی ادارے ان سرمایہ دار ممالک کی اجازت کے بغیر ان پسماندہ ممالک سے کسی بھی قسم کی معاونت نہیں کرتیں۔

جب 2008 کا مالی بحران اپنے بام عروج پر تھا تو کوفی عنان نے افریقہ پروگریس پینل کے ساتھی ارکان ، مشیل کیمڈیئس اور رابرٹ روبن کے ساتھ مل کر فنانشل ٹائمز میں اپنے ایک مضمون میں ترقی یافتہ اقوام سے مطالبہ کیا کہ وہ ترقی پذیر دنیا کے ساتھ اپنے موجودہ وعدوں ، خاص طور پر امدادی سطحوں کا احترام کریں اور مالی بحران کو بطور بہانہ بنا کر ان اقوام کو ایسے نہ چھوڑیں اور ساتھ ساتھ انھوں نے ایک نئے عالمی معاشی انتظام کی بات کی۔ جس میں پسماندہ ممالک کو بھی شامل ہونا چاہیے تاکہ ان کی آواز بھی سنی جائے۔

دوسرے لفظوں میں اگر کہا جائے تو 2008 کے عالمی مالیاتی بحران نے سرمایہ دارانہ نظام کا سفاک چہرہ مزید عیاں کیا اور اس بحران نے آزاد منڈی (لبرل اکانومی) کے فلسفے پر سوال کھڑے کیئے۔ بقول پیٹراس اور ویلٹ میئر سرمایہ داری عالمگیریت کی شکل میں سماجی برابری، جمہوری اقدار اور آزاد فیصلہ سازی کے دعوؤں میں بالکل ناکام ثابت ہوئی ہے۔

نظریہ انحصار کے مفکرین کے خیالات کی بات کی جائے تو ان میں ایک بنیادی نقص انحصار کو ایک واضح لکیر کے طور پر دیکھنا ہے جبکہ ایسا نہیں ہے۔ انحصار مختلف صورتوں میں پائی جاتی ہے جیسے کہ اوپر بیان کیا گیا ہے اور یہ مسلسل ایک تبدیلی سے گزر رہی ہوتی ہے اس کی ایک واضح شکل نہیں ہوتی۔

بنیادی طور پر نظریہ انحصار پزیری کے مفکرین کا خیال تھا کہ پسماندہ ممالک اس انحصار سے سرمایہ دار ممالک سے علیحدگی اختیار کر کے نکل سکتے ہیں۔ جبکہ ایسا نہیں ہوا بلکہ سرد جنگ کے خاتمے کے بعد ہمیں ترقی یافتہ اور ترقی پزیر ممالک میں مزید ہم آہنگی دیکھنے کو ملی۔

اگر ہم 2008 مالیاتی بحران کو مد نظر رکھتے ہوئے سرمایہ دارانہ نظام کا جائزہ لیں تو یہ بحران واضح طور پر نظریہ انحصار پزیری کے عالمی نابرابری کی بابت دیئے گئے دلائل اور خیالات کو صحیح ثابت کرتی ہے۔ ہاں البتہ نظریہ انحصار پزیری کو موجودہ حالات پر لاگو کرتے وقت ہمیں محتاط انداز میں چیزوں کو دیکھنا چاہیئے، ایسا نہیں ہے کہ ایک ترقی یافتہ ملک میں مالی اتار چڑھاؤ سے پسماندہ ممالک متاثر ہوتی ہیں ۔

دیگر نظریوں کی طرح نظریہ انحصار پزیری کو بھی سراہا گیا ہے اور اس پر تنقید بھی کی گئی ہے۔ اس نظریے کی بھی اپنی کچھ خامیاں اور خوبیاں ہیں۔ پر نظریہ انحصار پزیری کے مفکرین کے خیالات اور دلائل آج بھی غریب اور امیر ممالک کے بیچ اور ان ممالک کے اندر بڑھتی ہوئی نابرابری کی خلاء کو صحیح معنوں میں بیان کرتی ہیں۔ آج ہمیں اپنے سماج میں ایک گہری تفریق دیکھنے کو ملتی ہے اور انحصار کا یہ رشتہ ہمارے سماجی ڈھانچے میں بھی کلی طور پر دیکھنے کو ملتی ہے۔

ماضی میں انحصار کے خیالات نے کچھ سیاسی حدود کو توڑ کر اُن وجوہات کی وضاحت کی جن کی وجہ سے دولت مند قومیں غریب ممالک سے فائدہ اٹھا رہی تھیں ، اور آج نظریہ انحصار پے در پے پیش آنے والی مالی بحرانوں ، قدرتی وسائل کا بے دریغ استعمال اور ترقی یافتہ اور ترقی پزیر ممالک کے بیچ بڑھتی خلاء کو بیان کرنے میں کارآمد ہے۔

__________________

* Dependency Theory نظریہ انحصار پذیری

ازیت کا مضحکہ خیز اور سفاکانہ نظام

عاصم سجاد اختر

نازی جرمنی کی وحشت کے دور کا ایک پہلو جس کا بہت کم ذکر کیا جاتا ہے جبری گمشدگیوں کو ادارہ جاتی شکل دینا ہے۔ دوسری جنگ عظیم کے عروج کے دنوں میں ہٹلر نے’ نائٹ اینڈ فوگ’ نامی حکم نامہ جاری کیا جس پر عمل کرتے ہوئے ہزاروں مخالفین کو جبری طور پر لاپتہ کر کے ازیت خانوں کے حوالے کر دیا گیا۔

میں نے اس تحریر کا آغاز بیسویں صدی کے وسط کے فاشسٹ رجیموں کے ذکر سے اس لیئےکیا کیونکہ میں سمجھتا ہوں کہ اس تحریر کو پڑھنے والے بہت سے معقول قاری اس بات سے اتفاق کریں گے یہ رجیم ہمارے اجتماعی شعور پر قابل نفرت داغوں کی نمائندگی کرتے ہیں۔ بہت سے لوگوں کا یہ خیال ہےکہ انسانیت مجموعی طور پر اس دور اور اس کے قبیح اعمال سے آگے بڑھ چکی ہے۔

افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ ایسا نہیں ہے۔ جنگ عظیم دوئم سے کچھ دہائی آگے بڑھتے ہوئے ہم آتے ہیں لاطینی امریکہ میں۔ 1960 کی دہائی کے وسط سے قریب دو دہائی تک برازیل، ارجنٹینا اور چلی سمیت بہت سے دیگر ممالک آمریت کے زیر دست رہے جن کے ہاتھوں ہزاروں مخالفین لاپتہ ہوئے۔ بہت سے کبھی واپس نہ آئے اور جو واپس آگئے وہ پہلے جیسے نہ رہے۔

حالیہ تاریخ میں بہت سی حکومتوں نے جبری گمشدگیوں کو ریاستی پالیسی کے طور پر اپنایا۔ عراق میں صدام حسین کی حکومت، چین کے صوبے سنکیانگ میں آئغور عوام پر ظلم ستم اور دہشت گردی کے خلاف جنگ کے نام پر گونتانامو بے میں امریکی ایزا رسانی کے مراکز انہی پالیسیوں کی چند قابل ذکر مثالیں ہیں۔

جبری گمشدگیوں کے پالیسی کے ساتھ ہمارا تجربہ نئی بات نہیں۔ مشرف دور حکومت میں جبری گمشدگیاں باقاعدہ منظر عام پر آنے لگی۔ بلوچستان سے لوگوں کے جبری گمشدگیوں کے ساتھ ساتھ وہ مجاہدین بھی لاپتہ ہونے لگے جن کی کبھی سرپرستی کی جاتی تھی جو کہ 2001 کے بعد ناپسندیدہ کردار بن گئے۔ تب سے ریاستی معملات میں فوجی عمل دخل کے ساتھ ساتھ جبری گمشدگیاں بھی سماج کے طول و عرض میں پھیل گئیں۔

لاپتہ بلوچوں کے اہل خانہ نے اس عمل کا گزشتہ 15 سالوں سے جس بہادری سے مقابلہ کیا ہے اس کی مثال نہیں ملتی ۔ ایک مرتبہ پھر وہ اسلام آباد میں بر سر احتجاج ہیں۔ ان کے احتجاج کو حکومتی جماعت کی جانب سے تب ہی توجہ مل سکی جب حزب مخالف کے رہنماؤں نے احتجاجی کیمپ کا دورہ شروع کیا۔

اس کے بعد وہی ہوا جس کا امکان تھا۔ کچھ سیاسی بیانات دیئے گئے کہ معاملہ اعلٰی سطح پر اٹھایا جائیگا اور ایک جبری گمشدگیوں کو غیر قانونی قرار دینے کیلئے ایک بل پارلیمنٹ میں پیش کی جائیگی۔ قانون سازی کسی حد تک طاقت کے بے جا استعمال کو روکنے میں موثر ہو سکتا ہے جیسا کہ فلپائن، میکسیکو اور تائی لینڈ جیسے مختلف ممالک میں دیکھنے میں آیا۔ امید ہے کہ پاکستان میں بھی قانون سازی اتنی ہی موثر ہوگی البتہ قانون سازی کی حمایت کے دعوے اپنی جگہ حکومت نے حال ہی میں اختر مینگل اور محسن داوڈ کی جانب اسی طرح کے ہی ایک بل کو پاس ہونے نہیں دیا۔

موجودہ حکومت بلاشبہ سابقہ حکومتوں کے نقش قدم پر چل رہی ہے۔ اگرچہ پی ٹی آئی ایک بدتر شکل میں سامنے آئی ہے اس سے پہلے حکومتوں نے بھی نو آبادیاتی بنیادوں پر قائم ریاستی عمل داری کو تبدیل کرنے میں قابل ذکر کردار ادا نہیں کیا۔ مشرف آمریت کے بعد سے تین مختلف حکومتیں آئی لیکن ان میں سے کسی نے بھی جبری گمشدگیوں میں ملوث قوتوں کو قانون کے سامنے لانے کی ہمت نہیں کی۔

پاکستانی فوجی شاہی کی انفرادیت اپنی جگہ ہمیں اس مغالطہ میں نہیں پڑنا چائیے کہ عالمی جمہوری لہر نے یورپی فاشزم یا سابقہ نو آبادیات میں آمرانہ طرز حکومت کو پیچھے چھوڑ دیا ہے۔ اگرچہ ٹرمپ ماضی کا حصہ بن چکا ہے لیکن اس کے باوجود جو کچھ مغربی ممالک میں ہو رہا ہے وہ ہمارے سامنے ہے۔ البتہ یہ حقیقت ہے کہ ترکی، نائجیریا اور انڈونیشیا جیسے ممالک بشمول لاطینی امریکہ کے ممالک جن کا اوپر ذکر کیا گیا دہائیوں سے فوجی حکومتوں کے زیر دست رہے وہاں اب جمہوریت بحال ہو چکی ہے لیکن اس کا ہرگز مطلب یہ نہیں کہ ان ممالک میں اندرونی تنازعات ، ریاست کی آمرانہ منطق ، اور اردوگان جیسے عوامی جزبات پر سیاست کرنے والے’ ڈیماگاگس’ وجود نہیں رکھتے۔ فوجی شاہانہ طرز حکومت کی برائیوں اور نسلی اکثریت پسندی کا شکار میانمار اپنے آپ میں ایک مثال ہے جو اوپر بیان کیئے گئے کسی بھی دوسرے ملک کی نسبت پاکستان سے زیادہ مماثلت رکھتا ہے۔

ایک ایسے وقت میں جبکہ ہم ایک اور مصالحت کے شکار سینٹ الیکشن کی طرف بڑھ رہے ہیں اورشنید ہے کہ بلوچستان کی سیٹوں پر سب سے زیادہ پیسے کی ریل پیل اور اسٹیبلشمنٹ کی سازشوں کا عمل دخل ہونے جا رہا ہے یہ کہنا بجا ہوگا کہ لاپتہ افراد کی بازیابی کیلئے احتجاج پر بیٹھے بلوچ خواتین ہمارے عہد میں جمہوریت، آزادی اور بردباری کی مجسم صورت ہیں۔ جبری گمشدگیوں کو رواج دینے والے لاطینی امریکہ کے آمروں کے خلاف جدوجہد کرنے والوں کے مصداق یہ خواتین نہ صرف خود کے اور اپنے گمشدہ پیاروں کی آواز ہیں بلکہ وہ تمام مظلوموں کے لیئے بھی آواز اٹھا رہی ہیں۔ یہ خواتین ہمیں امید دلاتی ہیں کہ ازیت کا یہ مضحکہ خیز اور سفاکانہ نظام ایک دن ضرور زمین بوس ہوگا۔

____________

بشکریہ: ڈان نیوز

بحریہ ٹاون اور کراچی کے مقامی باشندوں کی زمین سے بے دخلی

Pic: Indigenous Rights Alliance

Click to read in English

کراچی کے مقامی باشندے بالخصوص گوٹھوں میں آباد سندھی اور بلوچ قبائل ملک ریاض کی سرپرستی میں منظم سرمایہ داروں کے ہاتھوں اپنی آبائی زمینوں سے بے دخلی کے خلاف برسرِ پیکار ہیں۔ زراعت اور گلہ بانی سے وابستہ ان مقامی قبائل کی زمین سے بے دخلی کا عمل در حقیقت برطانوی استعماریت کے دوران شروع ہوتی ہے جہاں اس نے انیسویں صدی میں اشتراکی زمینوں پر جبری طورپر نوآبادیاتی و نجی ملکیت مسلط کر دیا۔ قدیم سندھی اور بلوچ گوٹھوں سے مقامی لوگوں کو جبری طورپر بے دخل کرنے کا تاریخی سلسلہ اب بحریہ ٹاؤ ن کی شکل میں اپنے انجام کو پہنچ رہا ہے جہاں جبری طورپر تمام سماجی سیاسی اور قانونی رکاوٹوں کو ہٹا کر کراچی کے زراعتی سماج کی مکمل خاتمے کی کوشش کی جارہی ہے جس کا بنیادی مقصد ٹیکس چوری، رشوت اور خصوصی رعایتوں کے ذریعے جمع کی گئی لوٹ کسوٹ کی دولت کو مزید بڑھانے کیلئے نئے مواقع پیدا کرنا ہے۔ کالا دھن اپنی مزید بڑھوتری و اضافے کےلیے لازماً قانونی معیشت میں حصہ داری کی راہیں ڈھونڈ نکالتا ہے۔

کراچی کے مقامی باشندے

زراعت پیشہ سندھی اور بلوچ آبادیاں کراچی کے مقامی باشندے ہونے کا دعوٰی کرتی ہیں۔ وہ اپنی تاریخ اٹھارویں صدی میں ابھرنے والے قلعہ بند تجارتی شہر سے بہت پہلے کا بتاتے ہیں جو کہ بعد میں ایک اہم نوآبایاتی بندرگاہ اور پاکستان کا پہلا دارالخلافہ بنا۔ شہر کراچی 1729 میں ہندو تاجروں کی قلعہ بند بستی سے ابھرا جو 1839 میں برطانوی قبضے کے بعد اپنے قدرتی بندرگاہ کی وجہ سے نو آبادیاتی تجارت کے مرکز کی شکل اختیار کر گیا جس سے قریبی خطوں سے لوگ کراچی ہجرت کرنے لگے اور شہر کی آبادی تیزی سے بڑھنے لگی۔ نو آبادیاتی حکمرانی میں ایک دہائی کے اندر ہی شہر اپنے دیواروں سے باہر پھیلنا شروع ہو گیا ۔ لیاری ندی اور پرانے شہر کے مضافات میں محنت کشوں کی بستیاں آباد ہونے لگی۔ بڑھتی نوآبادیاتی تجارت کے ساتھ ساتھ مہاجرت میں اضافہ ہوا ۔ برطانوی قبضے کے وقت شہر کی آبادی جو کہ اندازاً 14000 تھی اگلے پانچ دہائیوں میں ایک لاکھ سے بڑھ گئی اور کراچی کو باقائدہ طور پر شہر کا درجہ ملا۔

قلعہ بند بستی کی نو آبادیاتی بندرگاہ میں تبدیل ہونے اور آبادی میں یکسر اضافے سے بہت پہلے سندھی اور بلوچ قبائل ملیر کی زرخیر وادی میں دریا کے ساتھ ساتھ زرعی آبادیوں کی شکل میں اور قدرتی بندر گاہ سے وابستہ مچیروں کی بستیوں کی شکل میں آباد چلی آرہی تھی۔ ان قبائل میں اٹھارویں اور انیسویں صدی میں مکران اور آس پاس کے علاقوں سے لوگ آکر آباد ہوئے اور وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ خطے کے فطری معیشت کا حصہ بن گئے۔ اکثر دانشور اس نقطے پر متفق ہیں کہ اولین قبائلی آبادیاں اور برطانوی یلغار سے قبل کی مہاجرتیں مجموعی طور پر کراچی کی مقامی آبادی تشکیل دیتے ہیں۔

بحریہ ٹاؤن کے ھاتھوں بے دخلی کا سامنا کرنے والے بہت سے سندھی اور بلوچ گوٹھ اپنا حسب نامہ انہی قبل از نوآبادیاتی باشندوں سے جوڑتے ہیں جنہیں شہر کے نوآبادیاتی بڑھوتری کے دوران اپنی سرزمین سے بے دخل نہیں کیا جا سکا تھا۔ ان قدیم زراعت اور گلہ بانی سے وابستہ باشندوں کیلئے زمین وجود کا ایک ناقابل انتقال ذریعہ تھاجس کی بنیاد پر انہیں ہم نو آبادیاتی ترقی کے دوران آباد ہونے والوں کی نسبت مقامی باشندے قرار دے سکتے ہیں۔مقامی سندھی اور بلوچ قبائل کی نسبت نوآبادیاتی دور میں آباد ہونے والے اکثر گروہ مقامی زرعی معیشت سے منسلک ہونے کے بجائے اکثر بندر گاہ کے توسط سے نو ابادیاتی تجارت سے منسلک ہوتے رہے۔

زمین سے بے دخلی کا نوآبادیاتی تسلسل

بلوچ آبادیاں جو کہ لیاری ندی کے آس پاس 18 ویں صدی کے آخری ادوار میں آباد ہوئے، انہیں سب سے پہلے زمین سے بے دخلی کا سامنا کرنا پڑھا۔ نو آبادیاتی تجارت سے ہونے والے شہری پھیلاؤ میں انہیں زمین کے ساتھ اپنی جڑت سے دستبردار ہونا پڑھا۔ یہ بلوچ گوٹھ جو بعد میں محنت کش طبقہ کے مضافات میں تبدیل ہوگئے شہری پھیلاؤ کا مرکز بن گئے۔برطانوی راج کے خاتمے کے وقت تک لیاری کی مقامی معیشت اپنے خاتمے کے قریب پہنچ چکی تھی جو کہ اگلے ایک دہائی میں غیر معمولی اندرونی مہاجرت کی وجہ سے مکمل طور پر ختم ہو کر رہ گئی۔ لیاری کے قدیم گوٹھوں کے برعکس شہری پھیلاؤ، اور بعد از نوآبادیات معاشی ساخت کے ملیر کے دیہاتی علاقوں پر اثرات ابتدائی طور پر نسبتاََ کم تھے۔ اگرچہ اولین ایام سے ہی مقامی وڈیروں میں زمین سے علحیدگی کے رجحانات موجود تھے۔ وڈیرے مقامی سماجی ڈھانچے میں بالادست مقام رکھتے اور نو آبادیاتی قوانین کی روح سےگوٹھ کی مشترکہ زمین کے انتقال کا اختیار رکھتے تھے۔ مقامی وڈیروں میں گوٹھ کی زمین سے دستبرداری اور پیسوں کے عوض انتقال کے رجہان کی بنیادی وجہ ان کے طبقاتی حیثیت کی میں تبدیلی تھی جو کہ ایک عام کسان سے جاگیردار میں تبدیل ہو گئے اور بعد از نوآبادیاتی معیشت میں حصہ دار ہو کر چھوٹے سرمایہ دار بن گئے۔ سندھی اور بلوچ زراعتی آبادیوں میں گوٹھ کی سطح پر ” وڈیرہ“ اعلٰی ترین جاگیردارانہ لقب ہے جو کہ سماجی ڈھانچے میں بالادست مقام رکھتا ہے۔ قبل از نوآبادیاتی دور کا وڈیرہ جس کا تعلق کسی قبائلی ڈھانچے سے ہوتا تھا، براہ راست قبائلی سربراہ کی جانب سے بطور نمائندہ متعین کیا جاتا تھا یا پھر دیہاتوں کی طرف سے نامزد شخص کو قبائلی سربراہ سربراہ کے طورپر توثیق کرتا۔ اٹھارویں اور انیسویں صدی میں ابھرنے والے خودمختار بلوچ قبائل جن کا کسی بھی بڑے قبائلی ڈھانچے سے کوئی الحاق نہیں تھا، اپنے آپ کو غیر قبائلی آبادیوں کے طور پر گوٹھوں میں منظم کیا جن کی سربراہی مقامی طور پر نامزد کوئی نمایاں شخصیت کرتا تھا۔

گاؤں کے یہ سربراہ اس وقت غیر رسمی و غیر اعلانیہ وڈیرہ بن گئے جب انگریز استعمار نے مختلف نو آبادیاتی حکم ناموں اور قوانین کے تحت اشتراکی زمینوں پر نجی ملکیت کو مسلط کیا ان قوانیں نے ملکیتی رشتوں کو بدل کر قدیم آبادیوں کو فقط قابل کاشت زمینوں تک محدود کر دیا۔ اس عمل کے نتیجے میں ناقابل کاشت یا بنجر زمینیں الگ ہو کر براہ راست نوآبادیاتی انتظامیہ کے ھاتھوں میں آگئیں۔ برطانوی سامراج نے ایسی زمینوں کو مقامی آبادیوں پر اپنی بالادستی قائم کرنے اور اپنے وفاداروں کے کردار کو مستحکم کرنے کیلئے استعمال کیا۔ غیر آباد و بنجر زمین جنہیں نوآبادیاتی ریونیو بورڈ نے اپنے قبضے میں لیا تھا، ان زمینوں کو وفاداری کے عوض مقامی قبائل اور وڈیروں کو یا پھر باہر سے ہجرت کرنے والے لوگوں کو بطور انعام یا پھر لیز پر عطا کیا گیا۔ بیسویں صدی کے اوائل میں ایک نوآبادیاتی حکم نامے کے ذریعے بڑے پیمانے پر زمین کی نجی ملکیت کےلیے راستہ ہموار کیا گیا۔ وہ لوگ جو مختلف جگہوں پر چھوٹے چھوٹے زمین لیز پر حاصل کرتے تھے انہیں یک مشت بڑی زمینیں لینے کی اجازت دے دی گئی جس کی بدولت بڑی بڑی جاگیریں وجود میں آگئیں اور اس کے ساتھ ہی جاگیردار طبقہ مضبوط ہوتا چلا گیا۔

بعد از نو آبادیاتی ریاست کے سرمایہ داروں نے باہر ہجرت کرنے والے غیر مسلم تاجر طبقے کی جگہ لی جنہوں نے اپنے پیچھے ایک تیار مارکیٹ چھوڑا تھا۔سرمایہ داروں کے اس نئے گروہ نے جو کہ کراچی کی سطح پر اکثر باہر سے آنے والے مہاجرین پر مشتمل تھی انہیں نومولود ریاست میں نوآبادیاتی ملکیتی رشتے ورثے میں ملے اور زمین سے بیگانگی کا نو آبادیاتی سلسلہ جاری رہا۔ اشتراکی زمینوں کی نجکاری اور کھیتی باڑی کرنے والے لوگوں کی ان کے زرائع پیداوار سے بیدخلی کے ذریعے بنیادی طورپر غیر سرمایہ دار معیشت میں سرمایہ داروں کی دولت کی بڑھوتری کے مواقع پیدا کیئے گئے۔ دیہی کراچی کے بلوچ اور سندھی آبادیو کی ان کے گوٹھوں سے بے دخلی کا ایک اور لہر 1960 کی دہائی میں شروع ہوا۔زرعی اصلاحات کے نام پر گوٹھوں کے آس پاس کی زمینیں جاگیرداروں کے نام کر کے ان کی نجکاری کیلئے راہ ہموار کی گئی جبکہ ریوینو بورڈ کے زیر قبضہ زمینیں بڑے صنعت کاروں اور اثر و رسوخ رکھنے والے شخصیات کو سونپ دی گئیں۔ یہ سلسلہ مختصر وقفوں کے ساتھ سنہ 2000 تک جاری رہا جب نئی بلدیاتی حکومت کے ذریعے زرعی زمین پر ڈاکہ ایک نئے مرحلے میں داخل ہوا جس میں دیہی زمین کے شکل مکمل طور پر تبدیل کرنے کیلئے میدان تیار کیا گیا۔

بحریہ ٹاؤن کراچی، سرمایا دارانہ توسیع پسندی کی ایک نئی شکل

جنرل پرویز مشرف کے آمریت میں سرمایہ داروں کو اپنے سرمایہ کے توسیع کیلئے نئے مواقع ہاتھ آئے۔ پاکستان کا ابھرتا ہوا سرمایہ دار طبقہ جس میں کاروباری اور سیاسی و عسکری بالادست گروہوں کے علاوہ سندھ اور بلوچستان کے وہ جاگیردار بھی شامل ہیں جو قبائلی و جاگیردارانہ خطابات کے علاوہ سرمایہ دارانہ معیشت میں بھی قابل زکر حصہ رکھتے ہیں۔ ریاستی معیشت کے علاوہ سرمایہ دار طبقہ بڑی حد تک غیرقانونی متوازی معیشت پر انحصار کرتا ہے۔ دلچسپ امر یہ ہے کہ یہ گروہ ریاست کے انتظامی اور عدالتی اداروں سے نالاں ہے جو کہ سرمایہ دار طبقے کی خدمت گزاری کے ساتھ ساتھ قانون سے ماورا طریقوں سے اپنے لیئے فوائد سمیٹنے کے چکر میں ہوتے ہیں۔ نتیجتاََ اکثر اوقات ریاستی عہدیدار خود ہی بڑے بڑے سرمایہ داروں کی شکل میں سامنے آتے ہیں ۔ انہوں نے مارکیٹ میں ھیرا پھیری کے ذریعے اپنے انتظامی حیثیت کو دولت کے ارتکاز کا زریعہ بنایا ہوا ہے ۔ یقیناً انہیں اپنے کاروباری مخالفین کے مقابلے میں زیادہ برتری حاصل ہے۔ عمومی طور پر کاروباری طبقے کو دفتری رکاوٹیں دور کرنے کےلیے انہی ریاستی عہدیداروں سے رجوع کرنا پڑھتا ہے ۔

طویل عرصے سے جاری آمرانہ طرز حکمرانی نے ملک میں ایسے حالات پیدا کیئے ہیں جہاں سرمایہ داروں کو اپنے سرمایہ کو پھیلانے کےلیے مکمل استثنٰی حاصل ہے ۔ سرمایہ دار طبقہ متوازی معیشت میں جمع کیئے گئے دولت یا کالے دھن کو بہ آسانی قانونی معیشت میں منتقل کرسکتے ہیں اور اس کالے دھن کے زور پر دولت کے ارتکاز کو اس نہج پر پہنچا سکتے ہیں جو عام طور پر مارکیٹ کے حدود کی وجہ سے ممکن نہیں اور منطقی طور پر معاشی بحران کی شکل اختیار کر لیتی ہے۔ ایسے ہی حالات مشرف کے آمرانہ دور میں پیدا کیئے گئے جب کراچی کے بلدیاتی حکومت کو سندھی اور بلوچ گوٹھوں میں زمین کے انتقال کے بڑے پیمانے پر اختیارات سونپے گئے۔سرکاری عہدیداروں کی طرف سے نجکاری کے عمل کو اپنے ھاتھ لینے سے جو کہ خود اس عمل میں منافع کما رہے تھے، نے زمین کے نجکاری کو مزید بد تر بنایا جس کی وجہ سے منافع خوری، فرضی ادائیگیاں، اور ملکیت کے جعلی دعوے عام ہوئے جس کی بنیادپر آگے جا کر مقامی لوگوں کے قانونی ملکیت کے دعوؤں کو متنازعہ قرار دیا گیا۔

ریاستی عہدیداروں کے کردار کا منتظم سے مارکیٹ ایجنٹ میں تبدیل ہونے کے عمل نے مارکیٹ کی حد بندیوں کو مزید ڈھیلا کردیا۔ قابل ٹیکس قانونی معیشت اور غیر قانونی معیشت کے درمیان حائل رکاوٹیں کم ہونے سے بحریہ ٹاؤن جیسے سرمایہ دارانہ پراجکٹ ممکن ہوا. بحریہ ٹاؤن کراچی کو شہر کے اندر ایک اور شہر قرار دیا جا رہا ہے جو یکے بعد دیگرے دیہات پر دیہات ہڑپ کرتا جا رہا ہے ۔ سرمایہ کے طاقت کے بل بوتے پر ملک ریاض اس مقام تک پہنچ چکا ہے جہاں وہ سرمایہ کے ارتکاز کے سامنے آنے والے ہر رکاوٹ کو عبور کرتا جارہاہے۔ دفتری کاموں میں رکاوٹوں کو اپنے مخصوص انداز میں فائلز کو پہیے لگا کر دور کرتا ہے، قانونی پیچیدگیوں پر حاوی ہونے کےلیے سیاسی بیانیہ تشکیل دیتا ہے اور اس کےلیے وہ سیاسی و عسکری قوتوں سے کاروباری معاہدے کرکے انہیں ان کی دیہاڑی دیتا ہے اور اپنے عوامی تاثر کو مثبت رکھنے کےلیے وہ سمجھوتوں کے شکار الیکٹرانک میڈیا کا رخ کرتا ہے۔

ملک ریاض نے بحریہ ٹاؤن کی شکل میں ریاست کے کردار اور سرمایہ دار طبقے کے مفادات کو ایک مثالی شکل میں یکجا کر دیا ہے جو کہ ملکی سیاسی نظام کی غیر فطری بڑھوتری کے سبب ممکن نہ ہوتا۔ انہی مخصوص حالات میں بحریہ ٹاؤن مسلسل اپنے حدود میں توسیع کرتا چلا جا رہا ہے۔ یہ توسیع پسندی صرف زمین پر قبضے تک محدود نہیں بلکہ اس سے بیک وقت ماحولیاتی نظام، مقامی لوگوں کی نقل و حرکت اور گوٹھوں کی بجلی و پانی کی فراہمی بھی متاثر ہو رہی ہے ۔نیز ہر وہ حربہ آزمایا جا رہا ہے جس سے مقامی لوگوں گے گرد گھیرا تنگ کر کے انہیں نقل مقانی پر مجبور کیا جا سکے تا کہ چند سرمایہ داروں کے ہاتھوں جمع غیر معمولی سرمایہ کو بحریہ ٹاؤن کی شکل میں کراچی کے تمام دیہی رقبے تک پھیلایا جا سکے۔

مگسی نواب اور بلوچستان کا طبقاتی جبر

زمین کی ملکیت وہ بنیاد ہے جس پر قبائلیت کے چوغے میں جاگیرداری نظام بلوچستان کے وسیع اور زرخیز میدانوں میں نہ صرف قائم ہے بلکہ ظلم کے نہ بیان ہونے والے داستان رقم کر رہا ہے۔ برطانوی سامراج کے وفادار سردار و نوابوں کی باقیات اسی ملکیت کی بنیاد پر بلوچ سماج پر اپنی بالادستی قائم کیئے ہوئے ہیں ۔ زمین کی ملکیت اور اسکی پیداوار میں شرکت کا کوئی بھی دعوی ان کی بالادستی پر برائے راست حملہ ہے کیونکہ وہ دعوی ان بنیادوں پر حملہ کرتا ہے جن پر بالادستی اور ظلم و جبر کا سارا نظام قائم ہے۔ جھل مگسی کا شمار بلوچستان کے ان علاقوں میں ہوتا ہے جہاں زمین پر مگسی نوابوں کا قبضہ اور ان کے اور کسان خاندانوں کے درمیان جبر کا رشتہ بلوچ سماج میں موجود جاگیرداری رشتوں کی خالص شکل میں عیاں ہوتی ہے۔

قبائلی نظام بلوچ قوم کے سماجی ارتقاء کے ایک مخصوص مرحلے میں وجود میں آئی جس کا بنیادی مقصد قبائل کو قیادت فراہم کرنے کے ساتھ قبائل کی مشترکہ معاشی و سماجی مفادات کا تحفظ، اندرونی و بیرونی خطرات کا مقابلہ کرنا اور قبائل میں انصاف کے نظام کو مضبوط بنیادوں پر قائم رکھنا تھا۔ ابتدائی عہد میں قبائلیت کی بنیاد زرعی زمین اور چراگاہوں کی مشترکہ ملکیت پر ہوتی تھی اور قیادت کا چناؤ جمہوری عمل کے زریعے ہوتا تھا۔ قبیلے کے افراد ملکر ایک قابل، سمجھدار، اور بہادر شخص کو سردار کی زمہ داری سونپ دیتے تھے۔ یوں سردار کا عہدہ ایک رعایت یا استحقاق ہونے کے بجائے زمہ داری ہوتی اور اس کے کمزور یا طاقتور ہونے کا دارومدار سردار کی نجی ملکیت کے بجائے قبائلی عوام کے اعتماد پر ہوتا۔

عوام کی حمایت اور مشترکہ ملکیت پر کھڑی یہ جمہوری نظام جو اپنے ابتدائی دنوں میں قدیم کمونزم کی خصوصیات رکھتی تھی مختلف اندرونی اور بیرونی عوامل کے زیر اثر سردار کے ہاتھوں نجی ملکیت کے ارتقاز پر منتہج ہوا اور سردار اپنے طاقت کیلئے قبیلے کی حمایت کے بجائے نجی ملکیت پر انحصار کرنے لگے۔ برطانوی سامراج نے قبائلی سماج کی سابقہ ترقی پسند اور جہوری روایات کو مکمل طور پر لپیٹ کر قبائلیت کو ایک استحصالی نظام میں تبدیل کر دیا ۔ سردار وں کے ساتھ بالادست طبقے میں نواب کے ٹائٹل کا اضافہ ہوا۔ سردار اور قبائلی عوام کے درمیان عزت و احترام اور برابری کا رشتہ حاکم اور محکوم کے رشتے میں تبدیل ہو گیا۔ برٹش راج نے 1901 میں فرنٹیرز کرائمز ریگولیشن نافذ کرکے سرداروں کو نہ صرف مضبوط کیا بلکہ ان کو مالی مفادات اور بڑی بڑی جاگیروں سے نوازا۔ اس طرح سرداروں کے ہاتھوں دولت کے ارتکاز کا جو عمل تاریخی طور پر سست روی سے جاری تھا اسے انگریز سامراج نے ایک تاریخی جست کے زریعے باقائدہ طور پر جاگیرداری بنیادوں پر استوار کر لیا۔

انگریز سامراج کے اس خطے سے نکلنے کے بعد ان کے جانشین فوجی و سول حکمران طبقے نے اپنی غیر جمہوری تسلط کو برقرار رکھنے کے لے قبائلی سرداری نظام کو تقویت دی اور انگریزوں کی طرح عوام کو دبانے کے لے سرداروں کو معاشی, سیاسی, انتظامی اور سماجی حوالے سے طاقتور بنا دیا۔ جس سے بلوچستان میں نہ صرف جمہوری روایات پنپ نہ سکے بلکہ صوبے میں سماجی, انسانی اور معاشی ترقی بھی نہ ہوسکی۔ انگریزوں اور ان کے بعد سول و فوجی اشرافیہ کے زیر دست زمین اور دوسرے زرائع پیداوار پر سرداروں اور نوابوں کی بالادستی مزید مستحکم ہو گئی اور اسطرح بلوچ سماج کی طبقاتی بنیادیں استوار ہوئی ۔ اس طبقاتی تقسیم کے ایک سرے پر سردار، نواب ان سے منسلک پیداگیر گروہ اکھٹا ہونے لگے تو دوسرے سرے پر بزگر شوان، روزنداری پر کام کرنے والے محنت کش اور کم سے کم اجرت پر گزارہ کرنے والا ملازم طبقہ جن کے پاس اپنے محنت بیچنے کے علاوہ باقی تمام سابقہ قبائلی زرائع پیداوار مسدود ہوتے گئے۔

سردار و نوابوں اور فوجی و سول بیوروکریسی کی ملی بھگت سے بلوچستان کی سیاست، معیشت، انتظامیہ سمیت تمام شعبوں میں گزشتہ 73 سالوں سے اصلاحات کا رستہ منظم طریقے سے روکا ہوا ہے جس سے بلوچستان کے عوام اکیسویں صدی میں بھی زندگی کی بنیادی ضرورتوں سے محروم ہیں جبکہ عدل کا مساویانہ نظام، سیاسی آزادی اور بنیادی انسانی حقوق کا تصور ہی محال ہے۔ جدید سرمایہ دارانہ ریاست کے برعکس جس کاایک فریضہ سرمایہ دارانہ طرز پیداوار کے سامنے حائل رکاوٹوں کا ہٹانا ہے بلوچستان جیسے خطوں میں قدیم طرز پیداوار اور بالادستی کے روایتی ڈھانچوں کا سہارہ لینے پر مجبور ہے۔ بلکہ ریاست بہت سی جگہوں پر اپنے کردار سے دست بردار ہوجاتی ہے اور یہی سردار و نواب ریاست کا روپ دھار لیتے ہیں۔

بلوچستان میں جھل مگسی ایک ایسا ہی علاقہ ہے جہاں نسلوں سے قبائلی حکمران خاندان اپنے آپ میں ریاست بن چکی ہے۔ انتظامی و عدالتی عہدے دار ملکی قانون کی پابند ہونے کے بجائے مقامی نوابوں کے احکامات پر عمل پیرا ہیں۔ جھل مگسی کا شمار بلوچستان کے پسماندہ ترین اضلاح میں ہوتا ہے جہاں پسماندگی معاشی ڈھانچوں سے نکل کر سماجی اور سیاسی ڈھانچوں میں سراعیت کر چکی ہے۔ زرعی زمینوں پر قبضہ، تشدد، خواتین کا اغوا اور غیرت کے نام پر قتل معمول کے واقعات ہیں۔ تمام زرعی زمینیں تقریبا نواب خاندان کے قبضے میں ہیں جنہیں بھائیوں نے آپس میں تقسیم کیا ہوا ہے اور ان کی منشا کے بغیر کوئی بھی خاندان زمین پر رہنے اور محنت مزدوری کرنے کا حق نہیں رکھتا۔ سالوں زمین پر آباد خاندانوں کو بے گھر کرنا اور ان سے جدی پشتی زمینیں ہتھیانا ان کیلئے بڑی بات نہیں۔ ریاست کے نوابوں کے ہاتھوں یرغمال ہونے کی وجہ بنیادی انسانی حقوق جن کی ضمانت ملکی آئین دیتا ہے سرے سے وجود ہی نہیں رکھتے۔ اسی طرح سیاسی اختلاف کی بھی کوئی گنجائش نہیں۔ 2013 میں مگسی نوابوں کے خلاف آزاد امیدوار عبدلفتاح مگسی کا دن دہاڑے قتل اور ان کے قتل میں نامزد ملزمان کے خلاف ریاست کی خاموشی ایک واضح مثال ہے ۔

طاقتور نواب خاندان کی جانب سے زمین پر قبضے کے خلاف بر سر احتجاج خیرالنسا اور ان کے خاندان کی کہانی نوابوں کے زیر دست عام عوام کی روز مرہ کی کہانی سے مختلف نہیں۔ ان کا تعلق جھل مگسی کے یونین کونسل میر پورسے ہے۔ میر پور بلوچستان کے ان سینکڑوں دیہاتوں میں سےایک ہے جہاں کی آبادی خشک سالی سے زرعی زمینوں کی پیداوار ختم ہوجانے کے سبب قریبی علاقوں میں ہجرت کرتے آرہے ہیں۔ خیرالنسا کے خاندان کے مطابق وہ بھی انہیں حالات سے دوچار صحبت پور ہجرت کرچکے تھے لیکن جب وہ واپس اپنی زمینوں کی طرف لوٹے تو ان پر قبضہ ہو چکا تھا۔ انہوں نے مقامی نوابوں کے اقتدار کو ماننے سے انکار کرتے ہوئے عدالت سے رجوع کیا اور اپنے آبائی زمینوں کی ملکیت کا حکم نامہ حاصل کر لیا ۔ لیکن عدالتی حکم نامے کے بعد انہیں زمین کا قبضہ ملنے کے بجائے مزید جبر و تشدد کا سامنا کرنا پڑا۔خاندان کا سربراہ ایک جھوٹے مقدمے میں پابند سلاسل ہے اور کمسن خیر النسا کو اسی جرم میں ایک طویل مدت تک حبس بے جا میں رکھا گیا ۔متعلقہ زمین اب بھی مگسی برادران کے قبضے میں ہے اور متاثرہ خاندان بر سر احتجاج قانون کی عملداری کی دہائی دے رہا ہے۔

جھل مگسی سمیت بلوچستان کے کسی بھی علاقے میں جاگیردار نوابوں اور سرداروں کے زیر دست کسانوں اور چھوٹے زمینداروں کی زمین سے بے دخلی، اغوا اور قتل کوئی نئی بات نہیں۔ سرکار کے ہم پلہ قبائلی سردار و نواب بلوچستان میں بسنے والے محکوم عوام کے ساتھ ہر روز ایسے واقعات کا ارتکاب کرتے ہیں اور اس کام کیلئے انہیں حکومتی مشینری دستیاب ہے جبکہ طبقاتی نظام عدل جس کے شکنجے میں ایک غریب روٹی چوری کرنے کے جرم میں سالوں سڑتا رہا ہے مگر طاقتور نواب اور ان کی اولادیں جسمانی تشدد، اغوا اور قتل جیسے سنگین جرائم کر کے بھی دندناتے پھرتے ہیں۔ایسے واقعات ریاست کی حقیقت کو واضح کرتی ہیں جو اپنے آئین اور قانون پر عمل درآمد نہیں کرواسکتا ہے اور اپنی وجود کو برقرار رکھنے کے لیئے سماج کے اندر موجود جابر اور استحصالی قوتوں کا سہارا لیتا ہے ۔ ان قوتوں کے خلاف مختلف شکلوں میں ابھرنے والی سیاسی مزاحمت اسی جبر کا رد عمل ہے جس کے رجحانات بلوچستان میں آئے روز دیکھے جاسکتے ہیں۔

بلوچستان کے زرعی علاقوں میں دولت کی سرداروں اور نوابوں کے ہاتھوں ارتکاز کی ایک شکل زمین کی ملکیت کا ارتکاز ہے جہاں پر طاقتور قبائلی ایلیٹ ریاستی اداروں کی ملی بھگت سے اپنے مقبوضہ زمین کی حدود میں مسلسل اضافہ کر رہے ہیں۔ پٹ فیڈر جیسے نہری آبپاشی نظام نے پہلے سے بنجر زمینوں کی قدر یکدم تبدیل کردی ہے جس سے ان بالادست سردار و نوابوں کے لیئے زمیں کی اہمیت مزید بڑھ گئی ہے جسے وہ کہیں پر قانون اور اسے نافذ کرنے والے اداروں کی مدد سے قبضہ کر رہے ہیں تو کہیں پر نجی کارندوں کے ہاتھوں لوگوں کو زرائع پیداوار سے بے دخلی کی شکل میں۔ اس طبقاتی تقسیم کے ایک جانب سردار و نوابوں کے ہاتھوں زرائع پیداوار کا تیزی سے ارتکاز اور بے گھر اور بے آسرا عوام کی تعداد میں اتنی ہی تیزی سے اضافہ ایک بڑھتے ہوئے طوفان کا پیش خیمہ ہے جس کے بطن سے مزاحمت اور انقلاب کی نئی شکلیں پھوٹ سکتی ہیں۔ زرائع پیداوار پر قابض سرداروں اور زمین سے بے دخل عوام کے درمیان تصادم کی شکل اختیار کرتے تضاد کا واحد انقلابی حل زرعی ملکیت کی از سرے نو تقسیم ہے ۔ اس تقسیم کی ایک شکل زرعی اصلاحات ہو سکتی ہیں۔ البتہ ریاست پر غالب سردار اور نواب جو کہ خود اس تضاد کے پیداوار ہیں ان سے زرعی اصلاحات کا مطالبہ ایک سہانے خواب کے علاوہ کچھ نہیں۔ اس تضاد کو اسی طبقے کے ہاتھوں حل ہونا ہے جس کے منہ سے نوالہ، سر سے چھت اور پیروں تلے زمیں چھین لی گئی ہے ۔ جن کے پاس مارکس اور اینگلز کے الفاظ میں “کھونے کے لئے زنجیروں کے علاوہ کچھ نہیں”۔ یہی طبقہ بلوچستان میں طبقاتی جد وجہد اور سماجی انقلاب کے علمبردار ہیں جس کیلئے ضروری ہے کہ زمین سے بے دخل عوام طبقاتی شعور کی جانب گامزن ہوں اور دیگر پسے ہوئے طبقات کے سا تھ متحد ہو جائیں اور مراعات یافتہ قومی بورژواوزی قیادت کے ہاتھوں استعمال ہونے کے بجائے سماجی و معاشی برابری اور انصاف کے انقلابی جد وجہد کی قیادت خود کرتے ہوئے اسے منزل مقصود تک پہنچائیں ۔