ھارون بلوچ
ہم میں سے اکثر شہید فدا بلوچ کو اپنے دور کے ایک عوامی رہنما کے طور پرجانتے اور مانتے ہیں۔ لیکن شہید فدا کو خراج عقیدت پیش کرتے وقت اکثر ان کے نظریات کو نظر انداز کر دیا جاتا ہے۔ شہید فدا کی برسی کے موقع پر ہم انہیں نہ صرف عوامی مقبولیت کی وجہ سے یاد کریں گے بلکہ یہ ایک بہترین موقع ہے کہ ان کے نظریات کو یاد کیا جائے اور ان پر بحث ہو۔
شہید فدا کے شہادت کے دوسرے دن 3 مئی 1988 کو جب ان کے جنازے پر سینکڑوں کامریڈزاکھٹا ہوئے تو انہیں مظلوموں کے رہنما اور ایک انقلابی کے طور پر یاد کیا گیا جوامریکی خفیہ ایجنسی سی آی اے کی آنکھوں میں چھبتا ہوا ایک کانٹا تھا۔ بلوچ قوم پرستی کا امریکہ اور دوسرے سرمایہ دار طاقتوں پرانحصار کل کی بات ہے۔ شہید فدا بین الاقوامی سطح پرسامراج مخالف رہنما کے طور پر جانے جاتے تھے جو کہ خطے میں امریکی دخل اندازی کے شدید مخالف تھے۔
1980 کی دہائی میں جب شہید فدا عوامی رہنما کے طور پر ابھرے اس وقت سویت یونین واحد عالمی طاقت تھا جسے مظلوم اقوام اپنا ہمدرد تصور کرتے تھے ۔ البتہ سویت روس پر مظلوم اقوام کا انحصار قوم پرستی اور مغربی سرمایہ دارانہ طاقتوں کے درمیان معاشقے سے کافی مختلف تھا۔ سویت دور کی کامریڈشپ روس کے حمایت پر کم اور مقامی ترقی پسند قوتوں کے ساتھ قربت پر زیادہ منحصر تھی۔
قوم پرست سیاست کے حالیہ دور میں 1980 کے بعد بلوچستان میں سیاسی ارتقا پر شاید ہی کبھی بات ہو ئی ہو جبکہ اس دور کے واقعات اور کرداروں کوایک مخصوص حد تک اپنایا گیا۔ قوم پرستی کا رجعتی تصور 1980 کے آخر میں شہید فدا کے نظریات کے برعکس ابھرنا شروع ہوا۔ فدا بلوچ کی شہادت کے بعد کے حالات بلوچستان میں یوتھ مومنٹس کی ناکامی اور ملکی وعالمی سطح پر بائیں بازو کی پسپائی سے بی ایس او اور بلوچ قوم پرستی میں ترقی پسند پہلو ختم ہوتا گیا۔ اور یوں شہید فدا کے نظریات کو بالائے طاق رکھ کر انہیں بطور قومی رہنما قوم پرستی کے مختلف طبقہ فکر نے یکساں اپنایا۔
ترقی پسند انقلابی قوم پرستی سے رجعتی قوم پرستی کی جانب اس مراجعت کی اب تک کوئی قابل ذکر توجیح سامنے نہیں آسکی۔ قوم پرست سیاست میں جو ترقی پسند تھے اور مارکسسزم کے ساتھ خود کو وابستہ کرتے تھے وہ ہمیشہ مارکسسٹ ہی رہے۔ ان میں سب سے نمایا نام خیر بخش مری کا ہے جو خود کو مارکسسٹ کہتے تھے اور آخر وقت تک سوشلسٹ بلوچستان کا خواب لیئے امر ہوگئے۔ یہاں تک کہ ان کی پنجابی مخالفت بھی مارکسسٹ بنیادوں پر تھی جہاں وہ پنجاب کے مزدوروں کی بلوچستان میں نو آبادیاتی کردار کو تنقید کا نشانہ بناتے تھے۔ انہیں ایک پنجابی مزدور سے جس کا بلوچستان کے استحصال میں کو ئی کردار نہیں اتنا ہی ہمدردی تھے جتنا مزدور طبقہ سے کسی مارکسسٹ کو ہوسکتا ہے۔ اقوام میں مختلف طبقات کے تاریخی کردار پران کا نکتہ نظر ان قوم پرست حلقوں سے یکسر مختلف تھا جن کی مخالفت کا معیار خالص نسلی بنیادوں پر ہے۔
شہید فدا مظلوموں کی یکجہتی پر یقین رکھتے تھے۔ ان کا ماننا تھا کہ سماجی انصاف کی جد و جہد میں بی ایس او اکیلا نہیں ہے بلکہ یہ ایک ایسی جدوجہد ہے جس کی کامیابی کا دارومدار ترقی پسند قوتوں کی مشترکہ عمل پر ہے۔ لیکن شہید فدا کوئی آئڈیلسٹ نہیں تھے۔ مظلوم طبقات کے انقلابی یکجہتی پر پختہ یقین اور پرامیدی کے باوجود بطور ایک مارکسسٹ شہید فدا خطے کے حالات اور تاریخ پر تنقیدی نقطہ نظررکھتے تھے۔
شہید فدا مظلوم طبقات کی سیاست پر یقین رکھتے تھے اور جبر کی مختلف صورتوں کےخلاف جدوجہد میں ان طبقات کے قائدانہ کردار کو بنیادی اہمیت کا حامل سمجھتے تھے۔ اپنے ایک نایاب تقریر میں جس کی وڈیو دستیاب ہے شہید فدا سندھی مزاحمت کو سراہتے ہیں اور 1980کے دوران چلنے والے تحریک بحالی جمہوریت کے حوالے سے اپنے خدشات کا اظہار کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ ایم آر ڈی اس تحریک کو ایک مرحلے تک پہنچا سکتی ہیں لیکن وہ عوام کے نجات کی ظامن نہیں بن سکتی ’’ تحریک کو اپنے مقاصد کے حصول تک آگے لے جانے کی زمہ داری ان قوتوں پرعائد ہوتی ہے جو سامراج کے خلاف ہیں، جورجعت پسندی کے خلاف ہیں، جو قومی بالادستی کے خلاف ہیں، جو مظلوم طبقات کی سیاسی میں یقین رکھتے ہیں۔‘‘
بلوچستان کے ساتھ اپنی غیر متزلزل وابستگی کے ساتھ ساتھ شہید فدا نے بڑے منظر نامے کو کبھی نگاہوں سے اوجل ہونے نہیں دیا۔ اپنے اسی تقریر میں کہتے ہیں ’’بلوچستان کے نوجوان اپنے وطن کے مسائل، قوم کی محرومی اور استحصال کے خلاف آواز اٹھاتے ہوئے اس بات سے قطعی بے خبر نہیں کہ سامراج اور اس کے ایجنٹوں نے اس خطے کو ایک بہت بڑے مورچے میں تبدیل کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔‘‘ شہید فدا کا طلبہ اور نوجوانوں کے لیئے پیغام تھا ’’ جدوجہد کیلئے سطحی نعروں سے نکل کرحقیقی مسائل کو دیکھیں، حقیقی دشمن کی پہچان کریں اور حقیقی قوتوں کو منظم کرنے کی کوشش کریں۔‘‘
شہید فدا کی قوم پرستی ’’استحصال زدہ دہقانوں کے حقوق کا علمبرادر تھا۔‘‘ فدا مظلوم عوام، مزدور، کسان اور قبائلی سماج کے پسے ہوائے مرد و زن کے حقوق کی ہرجدوجہد میں صف اول میں ہوتا۔ ان کا کہنا تھا کہ مظلوم عوام کی آواز بنے بغیر ’’جد وجہد آگے نہیں بڑھ سکتی اور عوام کو متحرک نہیں کیا جا سکتا۔‘‘
شہید فدا کے دور کے ترقی پسند قوم پرستی کی اہمیت کبھی ختم نہیں ہوئی کیونکہ ان کےدور کے اہم تضادات آج مزید شدت کے ساتھ موجود ہیں اور حل طلب ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ عوام کے اندر شہید فدا سے محبت اور وابستگی بھی پہلے سے زیادہ شدت کے ساتھ موجود ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ اس وابستگی کو شہید فدا کے نظریات کے ساتھ جوڑا جائے۔
بشکریہ: حال احوال