Category Archives: Analysis

نظریہ انحصار پذیری اور عالمی معاشی نابرابری

Click to read in English

عبدلناصر

یہ مضمون بین الاقوامی تعلقات عامہ کی مد میں نظریہ انحصار پذیری* کی مناسبت سے لکھا گیا ہے کہ کیا نظریہ انحصار پذیری موجودہ ترقی یافتہ اور ترقی پذیر ممالک کے بیچ غیر متوازی معاشی حالات اور معاملات کو سمجھنے میں کارآمد ہے؟

بین الاقوامی تعلقات عامہ پر ہمیشہ سے مغرب کی ایک چھاپ رہی ہے جس بنا پر عالمی مسائل کو ہمیشہ مغرب کی نقطہ نظر سے دیکھا جاتا رہا ہے، جس کے نتیجے میں محکوم و مظلوم اقوام کی آواز، خدشات و تحفظ ہمیشہ دب کر رہ گئیں۔

نظریہ انحصار پزیری لاطینی امریکہ کے مفکرین کی طرف سے دیا گیا ایک مقبول نظریہ جو مغربی نقطہ نظر، مغرب سے جڑی جدیدیت اور ترقی کے بیانیے کا بطور ایک تنقید ابھر کر سامنے آئی۔ انیس سو پچاس سے انیس سو اسی کی دہائی تک ڈی کالونائزیشن کے نتیجے میں جب نئی ریاستیں بننا شروع ہوئیں تو پہلے پہل ان ریاستوں میں انیسویں صدی کے مغرب کی نسبت تیز ترین معاشی ترقی دیکھنے کو ملی، اس بناء پر یہ خیال کیا جانے لگا کہ جدیدیت ایک آفاقی مظہر ہے جسے اپنا کر قدیم سماج ترقی کر سکتے ہیں۔ اس بیانیے میں ایک بنیادی قضیہ یہ تھا کہ ترقی کو براہ راست مغربی اقدار مغربی فکر اور طرز عمل سے جوڑ کر غیر مغربی نقطہ فکر سے قطع نظر کیا جاتا رہا۔

بقول آندرے فرینک بیشتر مؤرخین کے مطالعے کا محور ترقی یافتہ ممالک رہی، جبکہ نوآبادیات زدہ ترقی پذیر ممالک پر نہایت قلیل توجہ مبزول کیا گیا۔ ترقی پذیر ممالک کے نو آبادیاتی تجربوں سے قطع نظرایک مغالطہ یہ بھی ہے کہ ترقی یافتہ اور ترقی پذیر ممالک کے تاریخی تجربوں کو ایک ہی کسوٹی میں تولہ جاتا ہے جبکہ آندر فرینک کے بقول پسماندگی ایک آفاقی مظہر نہیں اور نہ ہی آج کے ترقی یافتہ سماج پہلے کبھی پسماندہ رہی ہیں۔ اپنے تاریخی تحقیق کی بنا پر آندرے فرینک یہ کہتے ہیں کہ موجودہ پسماندگی ترقی یافتہ اور ترقی پذیر ممالک کے بیچ معاشی اور دیگر تاریخی معاملات کا نتیجہ ہے اور یہ غیر متوازی معاملات عالمی سطح پر سرمایہ دارانہ نظام کا ایک اہم جزو ہیں جس میں پسماندہ ممالک ترقی یافتہ ممالک کو خام مال کے ساتھ ساتھ سستی انسانی محنت بھی مہیا کرتی ہیں جس سے ترقی یافتہ ممالک زائد سرمائے کا گڑھ بن جاتی ہیں۔ اس کے برعکس سرمایہ اور منافع پسماندہ ممالک کو سرمایہ دار ممالک کے معاشی مفادات اور منشا کے مطابق مہیا کی جاتی ہیں۔ یہ کہنا بے جا نہیں ہوگا کہ سیاسی اور معاشی طاقت سرمایہ دار ممالک کے ہاتھوں کا کھلونا ہے۔ یہ وہ پہلو ہے جسے مارکسی نکتہ نظر میں سامراجیت کہتے ہیں۔

نظریہ انحصارپزیری کے مرکزی دعوٰے

پسماندگی ایک ایسی نوعیت ہے جس میں وسائل تیسری دنیا کے ممالک سے نکالنے کے باوجود بجائے وہاں بروئے کار لانے کے ترقی یافتہ ممالک کے مفاد میں استعمال ہوتی ہیں۔

یہ نظریہ باہر سے مسلط کردہ اصولوں کے بجائے وسائل کے استعمال کی متبادل طریقوں پر زور دیتی ہے۔

اس نظریے کے مفکرین ہر ملک کے معاشی مفاد کی بات کرتے ہیں اور ان کا ماننا ہے کہ قومی مفاد غربت اور پسماندگی دور کیئے بغیر حاصل کرنا ممکن نہیں۔

غاصب ریاستیں تیسری دنیاکے ممالک میں وسائل کی لوٹ کھسوٹ نہ صرف خود کرتی ہیں بلکہ وہاں موجود اشرفیہ اور برسراقتدار طبقہ اپنے مفادات کے لئے بھی اس لوٹ کھسوٹ میں ان کی معاونت کرتا ہے ان دونوں طبقوں کے آپسی مفادات ایک دوسرے سے مشروط ہیں جو انحصار پذیری کا موجب بنی ہوئی ہیں۔

نظریہ انحصار پذیری اور موجودہ دور

اگر دیکھا جائے تو طبقاتی فرق اور نابرابری آج بھی واضح نظر آتی ہے۔ ‏بقول ڈوس سینٹوس بین الاقوامی تجارتی تعلقات اور مارکیٹ میں سرمایہ داروں کی اجارہ داری ہے جس میں پیداوار کا زائد حصہ سرمایہ داروں کے کھاتے میں جاتا ہے جس کے نتیجے میں پسماندہ ممالک ان سرمایہ دار ممالک کا مقابلہ نہیں کر پاتے۔ نہ برابری کی یہ لکیر کسی نہ کسی شکل میں اب بھی پائی جاتی ہے جیسے کہ پسماندہ ممالک کے محصولات پر عائد پابندیاں، عالمی مارکیٹ میں بنیادی اشیاء کی قیمتوں کا گھٹنا، یہ وہ عوامل ہیں جن سے غریب ممالک بری طرح متاثر ہو رہی ہیں۔ ڈوس سنٹوس کے بقول انحصار کے اس آپسی رشتے میں معاشی معاملات کی ڈُور حاکم ریاستوں کے ہاتھ میں ہوتی ہے اور اپنے فائدے اور منافع کی خاطر یہ حاکم ریاست معاشی معاملات سود کی بنیاد پر طے کرتی ہیں جو ان کی گرفت کو پسماندہ ممالک پر مزید مضبوط کرتی ہے۔

نظریہ انحصار پذیری کے مطابق جب یہ پسماندہ ممالک عالمی سرمایہ دارانہ نظام کا حصہ بنتی ہیں تو بیرونی سرمایہ ان کے معاشی وسائل سمیت دیگر معاملات کو اپنے قابو میں کرتی ہے جس سے پسماندہ ممالک ترقی کے بجائے حاکم ریاستوں کے مفادات کی تکمیل کا باعث بنتی ہیں۔

ان عالمی نابرابریوں کا ایک دوسرا پہلو ہمیں فنی اور صنعتی انحصار کی صورت میں ملتا ہے جن پر حاکم ریاستوں کی اجارہ داری ہے اور وہ اس کے ذریعہ پسماندہ ممالک کی صنعت کو اپنے مفادات کے مطابق ڈھال دیتی ہیں۔اس معاملے میں ان پسماندہ ممالک کو ٹیکنالوجی کی ترسیل بھی حاکم ریاستوں کے لئے منافع بخش ہوتا ہے، کیونکہ تیسری دنیائی ممالک کے لئے اس ٹیکنالوجی کا حصول ممکن نہیں ۔ بعض اوقات ان پسماندہ ممالک میں ٹیکنالوجی کی ترسیل بہت حد تک محدود کی جاتی ہے جو کہ ان ممالک میں صنعتی زبوں حالی کا موجب بن کر مزید پسماندہ ممالک کو سرمایہ دار ممالک کےسامنے زیر کرتا ہے۔ امیر ممالک اپنے سرمائے کی وجہ سے ہی جدید ٹیکنالوجی اور ایجادات کے اہل ہیں خواہ وہ ڈیجیٹل ٹیکنالوجی ہویا طِب سے متعلق، پسماندہ ممالک انہی حاکم ریاستوں کی نظر کرم پر ہیں۔

نظریہ انحصار پذیری اور عالمی مالیاتی بحران

کارل مارکس نے سرمایہ داری کو ایک ترقی پسند تاریخی مرحلے کے طور پر دیکھا جو بالآخر اندرونی تضادات کی وجہ سے جمود کا شکار ہوگا اور اس کی جگہ سوشلزم لے گی۔ تاریخ کا دقیق مطالعہ کیا جائے تو یہ بات عیاں ہوتی ہے کہ موجودہ نظام کے انسانی تجربے تلخ ثابت ہوتی نظر آئیں گی خواہ وہ 1930 کا عالمی مالیاتی بحران ہو یا پھر اس سے بھی ہیبتناک 2008 کا مالیاتی بحران۔ ان جیسے کئی معاملات نظریہ انحصار پزیری اور اس نظریے کے مفکرین کے دعووں کو صحیح ثابت کرتی ہیں۔ عالمی مالیاتی بحران نے سرمایہ دار اور پسماندہ ممالک کو بری طرح متاثر کیا ہے اور ان ممالک کے بیچ ایک بڑی خلاء پیدا کی ہے۔

اب جبکہ بڑے مالیاتی ادارے سرمایہ دارممالک کے زیر اثر ہیں تو اس بیچ پسماندہ ممالک کو بوقت ضرورت سرمائے کی رسد میں بڑی مشکل کا سامنا ہوتا ہے کیونکہ مالیاتی ادارے ان سرمایہ دار ممالک کی اجازت کے بغیر ان پسماندہ ممالک سے کسی بھی قسم کی معاونت نہیں کرتیں۔

جب 2008 کا مالی بحران اپنے بام عروج پر تھا تو کوفی عنان نے افریقہ پروگریس پینل کے ساتھی ارکان ، مشیل کیمڈیئس اور رابرٹ روبن کے ساتھ مل کر فنانشل ٹائمز میں اپنے ایک مضمون میں ترقی یافتہ اقوام سے مطالبہ کیا کہ وہ ترقی پذیر دنیا کے ساتھ اپنے موجودہ وعدوں ، خاص طور پر امدادی سطحوں کا احترام کریں اور مالی بحران کو بطور بہانہ بنا کر ان اقوام کو ایسے نہ چھوڑیں اور ساتھ ساتھ انھوں نے ایک نئے عالمی معاشی انتظام کی بات کی۔ جس میں پسماندہ ممالک کو بھی شامل ہونا چاہیے تاکہ ان کی آواز بھی سنی جائے۔

دوسرے لفظوں میں اگر کہا جائے تو 2008 کے عالمی مالیاتی بحران نے سرمایہ دارانہ نظام کا سفاک چہرہ مزید عیاں کیا اور اس بحران نے آزاد منڈی (لبرل اکانومی) کے فلسفے پر سوال کھڑے کیئے۔ بقول پیٹراس اور ویلٹ میئر سرمایہ داری عالمگیریت کی شکل میں سماجی برابری، جمہوری اقدار اور آزاد فیصلہ سازی کے دعوؤں میں بالکل ناکام ثابت ہوئی ہے۔

نظریہ انحصار کے مفکرین کے خیالات کی بات کی جائے تو ان میں ایک بنیادی نقص انحصار کو ایک واضح لکیر کے طور پر دیکھنا ہے جبکہ ایسا نہیں ہے۔ انحصار مختلف صورتوں میں پائی جاتی ہے جیسے کہ اوپر بیان کیا گیا ہے اور یہ مسلسل ایک تبدیلی سے گزر رہی ہوتی ہے اس کی ایک واضح شکل نہیں ہوتی۔

بنیادی طور پر نظریہ انحصار پزیری کے مفکرین کا خیال تھا کہ پسماندہ ممالک اس انحصار سے سرمایہ دار ممالک سے علیحدگی اختیار کر کے نکل سکتے ہیں۔ جبکہ ایسا نہیں ہوا بلکہ سرد جنگ کے خاتمے کے بعد ہمیں ترقی یافتہ اور ترقی پزیر ممالک میں مزید ہم آہنگی دیکھنے کو ملی۔

اگر ہم 2008 مالیاتی بحران کو مد نظر رکھتے ہوئے سرمایہ دارانہ نظام کا جائزہ لیں تو یہ بحران واضح طور پر نظریہ انحصار پزیری کے عالمی نابرابری کی بابت دیئے گئے دلائل اور خیالات کو صحیح ثابت کرتی ہے۔ ہاں البتہ نظریہ انحصار پزیری کو موجودہ حالات پر لاگو کرتے وقت ہمیں محتاط انداز میں چیزوں کو دیکھنا چاہیئے، ایسا نہیں ہے کہ ایک ترقی یافتہ ملک میں مالی اتار چڑھاؤ سے پسماندہ ممالک متاثر ہوتی ہیں ۔

دیگر نظریوں کی طرح نظریہ انحصار پزیری کو بھی سراہا گیا ہے اور اس پر تنقید بھی کی گئی ہے۔ اس نظریے کی بھی اپنی کچھ خامیاں اور خوبیاں ہیں۔ پر نظریہ انحصار پزیری کے مفکرین کے خیالات اور دلائل آج بھی غریب اور امیر ممالک کے بیچ اور ان ممالک کے اندر بڑھتی ہوئی نابرابری کی خلاء کو صحیح معنوں میں بیان کرتی ہیں۔ آج ہمیں اپنے سماج میں ایک گہری تفریق دیکھنے کو ملتی ہے اور انحصار کا یہ رشتہ ہمارے سماجی ڈھانچے میں بھی کلی طور پر دیکھنے کو ملتی ہے۔

ماضی میں انحصار کے خیالات نے کچھ سیاسی حدود کو توڑ کر اُن وجوہات کی وضاحت کی جن کی وجہ سے دولت مند قومیں غریب ممالک سے فائدہ اٹھا رہی تھیں ، اور آج نظریہ انحصار پے در پے پیش آنے والی مالی بحرانوں ، قدرتی وسائل کا بے دریغ استعمال اور ترقی یافتہ اور ترقی پزیر ممالک کے بیچ بڑھتی خلاء کو بیان کرنے میں کارآمد ہے۔

__________________

* Dependency Theory نظریہ انحصار پذیری

ازیت کا مضحکہ خیز اور سفاکانہ نظام

عاصم سجاد اختر

نازی جرمنی کی وحشت کے دور کا ایک پہلو جس کا بہت کم ذکر کیا جاتا ہے جبری گمشدگیوں کو ادارہ جاتی شکل دینا ہے۔ دوسری جنگ عظیم کے عروج کے دنوں میں ہٹلر نے’ نائٹ اینڈ فوگ’ نامی حکم نامہ جاری کیا جس پر عمل کرتے ہوئے ہزاروں مخالفین کو جبری طور پر لاپتہ کر کے ازیت خانوں کے حوالے کر دیا گیا۔

میں نے اس تحریر کا آغاز بیسویں صدی کے وسط کے فاشسٹ رجیموں کے ذکر سے اس لیئےکیا کیونکہ میں سمجھتا ہوں کہ اس تحریر کو پڑھنے والے بہت سے معقول قاری اس بات سے اتفاق کریں گے یہ رجیم ہمارے اجتماعی شعور پر قابل نفرت داغوں کی نمائندگی کرتے ہیں۔ بہت سے لوگوں کا یہ خیال ہےکہ انسانیت مجموعی طور پر اس دور اور اس کے قبیح اعمال سے آگے بڑھ چکی ہے۔

افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ ایسا نہیں ہے۔ جنگ عظیم دوئم سے کچھ دہائی آگے بڑھتے ہوئے ہم آتے ہیں لاطینی امریکہ میں۔ 1960 کی دہائی کے وسط سے قریب دو دہائی تک برازیل، ارجنٹینا اور چلی سمیت بہت سے دیگر ممالک آمریت کے زیر دست رہے جن کے ہاتھوں ہزاروں مخالفین لاپتہ ہوئے۔ بہت سے کبھی واپس نہ آئے اور جو واپس آگئے وہ پہلے جیسے نہ رہے۔

حالیہ تاریخ میں بہت سی حکومتوں نے جبری گمشدگیوں کو ریاستی پالیسی کے طور پر اپنایا۔ عراق میں صدام حسین کی حکومت، چین کے صوبے سنکیانگ میں آئغور عوام پر ظلم ستم اور دہشت گردی کے خلاف جنگ کے نام پر گونتانامو بے میں امریکی ایزا رسانی کے مراکز انہی پالیسیوں کی چند قابل ذکر مثالیں ہیں۔

جبری گمشدگیوں کے پالیسی کے ساتھ ہمارا تجربہ نئی بات نہیں۔ مشرف دور حکومت میں جبری گمشدگیاں باقاعدہ منظر عام پر آنے لگی۔ بلوچستان سے لوگوں کے جبری گمشدگیوں کے ساتھ ساتھ وہ مجاہدین بھی لاپتہ ہونے لگے جن کی کبھی سرپرستی کی جاتی تھی جو کہ 2001 کے بعد ناپسندیدہ کردار بن گئے۔ تب سے ریاستی معملات میں فوجی عمل دخل کے ساتھ ساتھ جبری گمشدگیاں بھی سماج کے طول و عرض میں پھیل گئیں۔

لاپتہ بلوچوں کے اہل خانہ نے اس عمل کا گزشتہ 15 سالوں سے جس بہادری سے مقابلہ کیا ہے اس کی مثال نہیں ملتی ۔ ایک مرتبہ پھر وہ اسلام آباد میں بر سر احتجاج ہیں۔ ان کے احتجاج کو حکومتی جماعت کی جانب سے تب ہی توجہ مل سکی جب حزب مخالف کے رہنماؤں نے احتجاجی کیمپ کا دورہ شروع کیا۔

اس کے بعد وہی ہوا جس کا امکان تھا۔ کچھ سیاسی بیانات دیئے گئے کہ معاملہ اعلٰی سطح پر اٹھایا جائیگا اور ایک جبری گمشدگیوں کو غیر قانونی قرار دینے کیلئے ایک بل پارلیمنٹ میں پیش کی جائیگی۔ قانون سازی کسی حد تک طاقت کے بے جا استعمال کو روکنے میں موثر ہو سکتا ہے جیسا کہ فلپائن، میکسیکو اور تائی لینڈ جیسے مختلف ممالک میں دیکھنے میں آیا۔ امید ہے کہ پاکستان میں بھی قانون سازی اتنی ہی موثر ہوگی البتہ قانون سازی کی حمایت کے دعوے اپنی جگہ حکومت نے حال ہی میں اختر مینگل اور محسن داوڈ کی جانب اسی طرح کے ہی ایک بل کو پاس ہونے نہیں دیا۔

موجودہ حکومت بلاشبہ سابقہ حکومتوں کے نقش قدم پر چل رہی ہے۔ اگرچہ پی ٹی آئی ایک بدتر شکل میں سامنے آئی ہے اس سے پہلے حکومتوں نے بھی نو آبادیاتی بنیادوں پر قائم ریاستی عمل داری کو تبدیل کرنے میں قابل ذکر کردار ادا نہیں کیا۔ مشرف آمریت کے بعد سے تین مختلف حکومتیں آئی لیکن ان میں سے کسی نے بھی جبری گمشدگیوں میں ملوث قوتوں کو قانون کے سامنے لانے کی ہمت نہیں کی۔

پاکستانی فوجی شاہی کی انفرادیت اپنی جگہ ہمیں اس مغالطہ میں نہیں پڑنا چائیے کہ عالمی جمہوری لہر نے یورپی فاشزم یا سابقہ نو آبادیات میں آمرانہ طرز حکومت کو پیچھے چھوڑ دیا ہے۔ اگرچہ ٹرمپ ماضی کا حصہ بن چکا ہے لیکن اس کے باوجود جو کچھ مغربی ممالک میں ہو رہا ہے وہ ہمارے سامنے ہے۔ البتہ یہ حقیقت ہے کہ ترکی، نائجیریا اور انڈونیشیا جیسے ممالک بشمول لاطینی امریکہ کے ممالک جن کا اوپر ذکر کیا گیا دہائیوں سے فوجی حکومتوں کے زیر دست رہے وہاں اب جمہوریت بحال ہو چکی ہے لیکن اس کا ہرگز مطلب یہ نہیں کہ ان ممالک میں اندرونی تنازعات ، ریاست کی آمرانہ منطق ، اور اردوگان جیسے عوامی جزبات پر سیاست کرنے والے’ ڈیماگاگس’ وجود نہیں رکھتے۔ فوجی شاہانہ طرز حکومت کی برائیوں اور نسلی اکثریت پسندی کا شکار میانمار اپنے آپ میں ایک مثال ہے جو اوپر بیان کیئے گئے کسی بھی دوسرے ملک کی نسبت پاکستان سے زیادہ مماثلت رکھتا ہے۔

ایک ایسے وقت میں جبکہ ہم ایک اور مصالحت کے شکار سینٹ الیکشن کی طرف بڑھ رہے ہیں اورشنید ہے کہ بلوچستان کی سیٹوں پر سب سے زیادہ پیسے کی ریل پیل اور اسٹیبلشمنٹ کی سازشوں کا عمل دخل ہونے جا رہا ہے یہ کہنا بجا ہوگا کہ لاپتہ افراد کی بازیابی کیلئے احتجاج پر بیٹھے بلوچ خواتین ہمارے عہد میں جمہوریت، آزادی اور بردباری کی مجسم صورت ہیں۔ جبری گمشدگیوں کو رواج دینے والے لاطینی امریکہ کے آمروں کے خلاف جدوجہد کرنے والوں کے مصداق یہ خواتین نہ صرف خود کے اور اپنے گمشدہ پیاروں کی آواز ہیں بلکہ وہ تمام مظلوموں کے لیئے بھی آواز اٹھا رہی ہیں۔ یہ خواتین ہمیں امید دلاتی ہیں کہ ازیت کا یہ مضحکہ خیز اور سفاکانہ نظام ایک دن ضرور زمین بوس ہوگا۔

____________

بشکریہ: ڈان نیوز

بحریہ ٹاون اور کراچی کے مقامی باشندوں کی زمین سے بے دخلی

Pic: Indigenous Rights Alliance

Click to read in English

کراچی کے مقامی باشندے بالخصوص گوٹھوں میں آباد سندھی اور بلوچ قبائل ملک ریاض کی سرپرستی میں منظم سرمایہ داروں کے ہاتھوں اپنی آبائی زمینوں سے بے دخلی کے خلاف برسرِ پیکار ہیں۔ زراعت اور گلہ بانی سے وابستہ ان مقامی قبائل کی زمین سے بے دخلی کا عمل در حقیقت برطانوی استعماریت کے دوران شروع ہوتی ہے جہاں اس نے انیسویں صدی میں اشتراکی زمینوں پر جبری طورپر نوآبادیاتی و نجی ملکیت مسلط کر دیا۔ قدیم سندھی اور بلوچ گوٹھوں سے مقامی لوگوں کو جبری طورپر بے دخل کرنے کا تاریخی سلسلہ اب بحریہ ٹاؤ ن کی شکل میں اپنے انجام کو پہنچ رہا ہے جہاں جبری طورپر تمام سماجی سیاسی اور قانونی رکاوٹوں کو ہٹا کر کراچی کے زراعتی سماج کی مکمل خاتمے کی کوشش کی جارہی ہے جس کا بنیادی مقصد ٹیکس چوری، رشوت اور خصوصی رعایتوں کے ذریعے جمع کی گئی لوٹ کسوٹ کی دولت کو مزید بڑھانے کیلئے نئے مواقع پیدا کرنا ہے۔ کالا دھن اپنی مزید بڑھوتری و اضافے کےلیے لازماً قانونی معیشت میں حصہ داری کی راہیں ڈھونڈ نکالتا ہے۔

کراچی کے مقامی باشندے

زراعت پیشہ سندھی اور بلوچ آبادیاں کراچی کے مقامی باشندے ہونے کا دعوٰی کرتی ہیں۔ وہ اپنی تاریخ اٹھارویں صدی میں ابھرنے والے قلعہ بند تجارتی شہر سے بہت پہلے کا بتاتے ہیں جو کہ بعد میں ایک اہم نوآبایاتی بندرگاہ اور پاکستان کا پہلا دارالخلافہ بنا۔ شہر کراچی 1729 میں ہندو تاجروں کی قلعہ بند بستی سے ابھرا جو 1839 میں برطانوی قبضے کے بعد اپنے قدرتی بندرگاہ کی وجہ سے نو آبادیاتی تجارت کے مرکز کی شکل اختیار کر گیا جس سے قریبی خطوں سے لوگ کراچی ہجرت کرنے لگے اور شہر کی آبادی تیزی سے بڑھنے لگی۔ نو آبادیاتی حکمرانی میں ایک دہائی کے اندر ہی شہر اپنے دیواروں سے باہر پھیلنا شروع ہو گیا ۔ لیاری ندی اور پرانے شہر کے مضافات میں محنت کشوں کی بستیاں آباد ہونے لگی۔ بڑھتی نوآبادیاتی تجارت کے ساتھ ساتھ مہاجرت میں اضافہ ہوا ۔ برطانوی قبضے کے وقت شہر کی آبادی جو کہ اندازاً 14000 تھی اگلے پانچ دہائیوں میں ایک لاکھ سے بڑھ گئی اور کراچی کو باقائدہ طور پر شہر کا درجہ ملا۔

قلعہ بند بستی کی نو آبادیاتی بندرگاہ میں تبدیل ہونے اور آبادی میں یکسر اضافے سے بہت پہلے سندھی اور بلوچ قبائل ملیر کی زرخیر وادی میں دریا کے ساتھ ساتھ زرعی آبادیوں کی شکل میں اور قدرتی بندر گاہ سے وابستہ مچیروں کی بستیوں کی شکل میں آباد چلی آرہی تھی۔ ان قبائل میں اٹھارویں اور انیسویں صدی میں مکران اور آس پاس کے علاقوں سے لوگ آکر آباد ہوئے اور وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ خطے کے فطری معیشت کا حصہ بن گئے۔ اکثر دانشور اس نقطے پر متفق ہیں کہ اولین قبائلی آبادیاں اور برطانوی یلغار سے قبل کی مہاجرتیں مجموعی طور پر کراچی کی مقامی آبادی تشکیل دیتے ہیں۔

بحریہ ٹاؤن کے ھاتھوں بے دخلی کا سامنا کرنے والے بہت سے سندھی اور بلوچ گوٹھ اپنا حسب نامہ انہی قبل از نوآبادیاتی باشندوں سے جوڑتے ہیں جنہیں شہر کے نوآبادیاتی بڑھوتری کے دوران اپنی سرزمین سے بے دخل نہیں کیا جا سکا تھا۔ ان قدیم زراعت اور گلہ بانی سے وابستہ باشندوں کیلئے زمین وجود کا ایک ناقابل انتقال ذریعہ تھاجس کی بنیاد پر انہیں ہم نو آبادیاتی ترقی کے دوران آباد ہونے والوں کی نسبت مقامی باشندے قرار دے سکتے ہیں۔مقامی سندھی اور بلوچ قبائل کی نسبت نوآبادیاتی دور میں آباد ہونے والے اکثر گروہ مقامی زرعی معیشت سے منسلک ہونے کے بجائے اکثر بندر گاہ کے توسط سے نو ابادیاتی تجارت سے منسلک ہوتے رہے۔

زمین سے بے دخلی کا نوآبادیاتی تسلسل

بلوچ آبادیاں جو کہ لیاری ندی کے آس پاس 18 ویں صدی کے آخری ادوار میں آباد ہوئے، انہیں سب سے پہلے زمین سے بے دخلی کا سامنا کرنا پڑھا۔ نو آبادیاتی تجارت سے ہونے والے شہری پھیلاؤ میں انہیں زمین کے ساتھ اپنی جڑت سے دستبردار ہونا پڑھا۔ یہ بلوچ گوٹھ جو بعد میں محنت کش طبقہ کے مضافات میں تبدیل ہوگئے شہری پھیلاؤ کا مرکز بن گئے۔برطانوی راج کے خاتمے کے وقت تک لیاری کی مقامی معیشت اپنے خاتمے کے قریب پہنچ چکی تھی جو کہ اگلے ایک دہائی میں غیر معمولی اندرونی مہاجرت کی وجہ سے مکمل طور پر ختم ہو کر رہ گئی۔ لیاری کے قدیم گوٹھوں کے برعکس شہری پھیلاؤ، اور بعد از نوآبادیات معاشی ساخت کے ملیر کے دیہاتی علاقوں پر اثرات ابتدائی طور پر نسبتاََ کم تھے۔ اگرچہ اولین ایام سے ہی مقامی وڈیروں میں زمین سے علحیدگی کے رجحانات موجود تھے۔ وڈیرے مقامی سماجی ڈھانچے میں بالادست مقام رکھتے اور نو آبادیاتی قوانین کی روح سےگوٹھ کی مشترکہ زمین کے انتقال کا اختیار رکھتے تھے۔ مقامی وڈیروں میں گوٹھ کی زمین سے دستبرداری اور پیسوں کے عوض انتقال کے رجہان کی بنیادی وجہ ان کے طبقاتی حیثیت کی میں تبدیلی تھی جو کہ ایک عام کسان سے جاگیردار میں تبدیل ہو گئے اور بعد از نوآبادیاتی معیشت میں حصہ دار ہو کر چھوٹے سرمایہ دار بن گئے۔ سندھی اور بلوچ زراعتی آبادیوں میں گوٹھ کی سطح پر ” وڈیرہ“ اعلٰی ترین جاگیردارانہ لقب ہے جو کہ سماجی ڈھانچے میں بالادست مقام رکھتا ہے۔ قبل از نوآبادیاتی دور کا وڈیرہ جس کا تعلق کسی قبائلی ڈھانچے سے ہوتا تھا، براہ راست قبائلی سربراہ کی جانب سے بطور نمائندہ متعین کیا جاتا تھا یا پھر دیہاتوں کی طرف سے نامزد شخص کو قبائلی سربراہ سربراہ کے طورپر توثیق کرتا۔ اٹھارویں اور انیسویں صدی میں ابھرنے والے خودمختار بلوچ قبائل جن کا کسی بھی بڑے قبائلی ڈھانچے سے کوئی الحاق نہیں تھا، اپنے آپ کو غیر قبائلی آبادیوں کے طور پر گوٹھوں میں منظم کیا جن کی سربراہی مقامی طور پر نامزد کوئی نمایاں شخصیت کرتا تھا۔

گاؤں کے یہ سربراہ اس وقت غیر رسمی و غیر اعلانیہ وڈیرہ بن گئے جب انگریز استعمار نے مختلف نو آبادیاتی حکم ناموں اور قوانین کے تحت اشتراکی زمینوں پر نجی ملکیت کو مسلط کیا ان قوانیں نے ملکیتی رشتوں کو بدل کر قدیم آبادیوں کو فقط قابل کاشت زمینوں تک محدود کر دیا۔ اس عمل کے نتیجے میں ناقابل کاشت یا بنجر زمینیں الگ ہو کر براہ راست نوآبادیاتی انتظامیہ کے ھاتھوں میں آگئیں۔ برطانوی سامراج نے ایسی زمینوں کو مقامی آبادیوں پر اپنی بالادستی قائم کرنے اور اپنے وفاداروں کے کردار کو مستحکم کرنے کیلئے استعمال کیا۔ غیر آباد و بنجر زمین جنہیں نوآبادیاتی ریونیو بورڈ نے اپنے قبضے میں لیا تھا، ان زمینوں کو وفاداری کے عوض مقامی قبائل اور وڈیروں کو یا پھر باہر سے ہجرت کرنے والے لوگوں کو بطور انعام یا پھر لیز پر عطا کیا گیا۔ بیسویں صدی کے اوائل میں ایک نوآبادیاتی حکم نامے کے ذریعے بڑے پیمانے پر زمین کی نجی ملکیت کےلیے راستہ ہموار کیا گیا۔ وہ لوگ جو مختلف جگہوں پر چھوٹے چھوٹے زمین لیز پر حاصل کرتے تھے انہیں یک مشت بڑی زمینیں لینے کی اجازت دے دی گئی جس کی بدولت بڑی بڑی جاگیریں وجود میں آگئیں اور اس کے ساتھ ہی جاگیردار طبقہ مضبوط ہوتا چلا گیا۔

بعد از نو آبادیاتی ریاست کے سرمایہ داروں نے باہر ہجرت کرنے والے غیر مسلم تاجر طبقے کی جگہ لی جنہوں نے اپنے پیچھے ایک تیار مارکیٹ چھوڑا تھا۔سرمایہ داروں کے اس نئے گروہ نے جو کہ کراچی کی سطح پر اکثر باہر سے آنے والے مہاجرین پر مشتمل تھی انہیں نومولود ریاست میں نوآبادیاتی ملکیتی رشتے ورثے میں ملے اور زمین سے بیگانگی کا نو آبادیاتی سلسلہ جاری رہا۔ اشتراکی زمینوں کی نجکاری اور کھیتی باڑی کرنے والے لوگوں کی ان کے زرائع پیداوار سے بیدخلی کے ذریعے بنیادی طورپر غیر سرمایہ دار معیشت میں سرمایہ داروں کی دولت کی بڑھوتری کے مواقع پیدا کیئے گئے۔ دیہی کراچی کے بلوچ اور سندھی آبادیو کی ان کے گوٹھوں سے بے دخلی کا ایک اور لہر 1960 کی دہائی میں شروع ہوا۔زرعی اصلاحات کے نام پر گوٹھوں کے آس پاس کی زمینیں جاگیرداروں کے نام کر کے ان کی نجکاری کیلئے راہ ہموار کی گئی جبکہ ریوینو بورڈ کے زیر قبضہ زمینیں بڑے صنعت کاروں اور اثر و رسوخ رکھنے والے شخصیات کو سونپ دی گئیں۔ یہ سلسلہ مختصر وقفوں کے ساتھ سنہ 2000 تک جاری رہا جب نئی بلدیاتی حکومت کے ذریعے زرعی زمین پر ڈاکہ ایک نئے مرحلے میں داخل ہوا جس میں دیہی زمین کے شکل مکمل طور پر تبدیل کرنے کیلئے میدان تیار کیا گیا۔

بحریہ ٹاؤن کراچی، سرمایا دارانہ توسیع پسندی کی ایک نئی شکل

جنرل پرویز مشرف کے آمریت میں سرمایہ داروں کو اپنے سرمایہ کے توسیع کیلئے نئے مواقع ہاتھ آئے۔ پاکستان کا ابھرتا ہوا سرمایہ دار طبقہ جس میں کاروباری اور سیاسی و عسکری بالادست گروہوں کے علاوہ سندھ اور بلوچستان کے وہ جاگیردار بھی شامل ہیں جو قبائلی و جاگیردارانہ خطابات کے علاوہ سرمایہ دارانہ معیشت میں بھی قابل زکر حصہ رکھتے ہیں۔ ریاستی معیشت کے علاوہ سرمایہ دار طبقہ بڑی حد تک غیرقانونی متوازی معیشت پر انحصار کرتا ہے۔ دلچسپ امر یہ ہے کہ یہ گروہ ریاست کے انتظامی اور عدالتی اداروں سے نالاں ہے جو کہ سرمایہ دار طبقے کی خدمت گزاری کے ساتھ ساتھ قانون سے ماورا طریقوں سے اپنے لیئے فوائد سمیٹنے کے چکر میں ہوتے ہیں۔ نتیجتاََ اکثر اوقات ریاستی عہدیدار خود ہی بڑے بڑے سرمایہ داروں کی شکل میں سامنے آتے ہیں ۔ انہوں نے مارکیٹ میں ھیرا پھیری کے ذریعے اپنے انتظامی حیثیت کو دولت کے ارتکاز کا زریعہ بنایا ہوا ہے ۔ یقیناً انہیں اپنے کاروباری مخالفین کے مقابلے میں زیادہ برتری حاصل ہے۔ عمومی طور پر کاروباری طبقے کو دفتری رکاوٹیں دور کرنے کےلیے انہی ریاستی عہدیداروں سے رجوع کرنا پڑھتا ہے ۔

طویل عرصے سے جاری آمرانہ طرز حکمرانی نے ملک میں ایسے حالات پیدا کیئے ہیں جہاں سرمایہ داروں کو اپنے سرمایہ کو پھیلانے کےلیے مکمل استثنٰی حاصل ہے ۔ سرمایہ دار طبقہ متوازی معیشت میں جمع کیئے گئے دولت یا کالے دھن کو بہ آسانی قانونی معیشت میں منتقل کرسکتے ہیں اور اس کالے دھن کے زور پر دولت کے ارتکاز کو اس نہج پر پہنچا سکتے ہیں جو عام طور پر مارکیٹ کے حدود کی وجہ سے ممکن نہیں اور منطقی طور پر معاشی بحران کی شکل اختیار کر لیتی ہے۔ ایسے ہی حالات مشرف کے آمرانہ دور میں پیدا کیئے گئے جب کراچی کے بلدیاتی حکومت کو سندھی اور بلوچ گوٹھوں میں زمین کے انتقال کے بڑے پیمانے پر اختیارات سونپے گئے۔سرکاری عہدیداروں کی طرف سے نجکاری کے عمل کو اپنے ھاتھ لینے سے جو کہ خود اس عمل میں منافع کما رہے تھے، نے زمین کے نجکاری کو مزید بد تر بنایا جس کی وجہ سے منافع خوری، فرضی ادائیگیاں، اور ملکیت کے جعلی دعوے عام ہوئے جس کی بنیادپر آگے جا کر مقامی لوگوں کے قانونی ملکیت کے دعوؤں کو متنازعہ قرار دیا گیا۔

ریاستی عہدیداروں کے کردار کا منتظم سے مارکیٹ ایجنٹ میں تبدیل ہونے کے عمل نے مارکیٹ کی حد بندیوں کو مزید ڈھیلا کردیا۔ قابل ٹیکس قانونی معیشت اور غیر قانونی معیشت کے درمیان حائل رکاوٹیں کم ہونے سے بحریہ ٹاؤن جیسے سرمایہ دارانہ پراجکٹ ممکن ہوا. بحریہ ٹاؤن کراچی کو شہر کے اندر ایک اور شہر قرار دیا جا رہا ہے جو یکے بعد دیگرے دیہات پر دیہات ہڑپ کرتا جا رہا ہے ۔ سرمایہ کے طاقت کے بل بوتے پر ملک ریاض اس مقام تک پہنچ چکا ہے جہاں وہ سرمایہ کے ارتکاز کے سامنے آنے والے ہر رکاوٹ کو عبور کرتا جارہاہے۔ دفتری کاموں میں رکاوٹوں کو اپنے مخصوص انداز میں فائلز کو پہیے لگا کر دور کرتا ہے، قانونی پیچیدگیوں پر حاوی ہونے کےلیے سیاسی بیانیہ تشکیل دیتا ہے اور اس کےلیے وہ سیاسی و عسکری قوتوں سے کاروباری معاہدے کرکے انہیں ان کی دیہاڑی دیتا ہے اور اپنے عوامی تاثر کو مثبت رکھنے کےلیے وہ سمجھوتوں کے شکار الیکٹرانک میڈیا کا رخ کرتا ہے۔

ملک ریاض نے بحریہ ٹاؤن کی شکل میں ریاست کے کردار اور سرمایہ دار طبقے کے مفادات کو ایک مثالی شکل میں یکجا کر دیا ہے جو کہ ملکی سیاسی نظام کی غیر فطری بڑھوتری کے سبب ممکن نہ ہوتا۔ انہی مخصوص حالات میں بحریہ ٹاؤن مسلسل اپنے حدود میں توسیع کرتا چلا جا رہا ہے۔ یہ توسیع پسندی صرف زمین پر قبضے تک محدود نہیں بلکہ اس سے بیک وقت ماحولیاتی نظام، مقامی لوگوں کی نقل و حرکت اور گوٹھوں کی بجلی و پانی کی فراہمی بھی متاثر ہو رہی ہے ۔نیز ہر وہ حربہ آزمایا جا رہا ہے جس سے مقامی لوگوں گے گرد گھیرا تنگ کر کے انہیں نقل مقانی پر مجبور کیا جا سکے تا کہ چند سرمایہ داروں کے ہاتھوں جمع غیر معمولی سرمایہ کو بحریہ ٹاؤن کی شکل میں کراچی کے تمام دیہی رقبے تک پھیلایا جا سکے۔

مگسی نواب اور بلوچستان کا طبقاتی جبر

زمین کی ملکیت وہ بنیاد ہے جس پر قبائلیت کے چوغے میں جاگیرداری نظام بلوچستان کے وسیع اور زرخیز میدانوں میں نہ صرف قائم ہے بلکہ ظلم کے نہ بیان ہونے والے داستان رقم کر رہا ہے۔ برطانوی سامراج کے وفادار سردار و نوابوں کی باقیات اسی ملکیت کی بنیاد پر بلوچ سماج پر اپنی بالادستی قائم کیئے ہوئے ہیں ۔ زمین کی ملکیت اور اسکی پیداوار میں شرکت کا کوئی بھی دعوی ان کی بالادستی پر برائے راست حملہ ہے کیونکہ وہ دعوی ان بنیادوں پر حملہ کرتا ہے جن پر بالادستی اور ظلم و جبر کا سارا نظام قائم ہے۔ جھل مگسی کا شمار بلوچستان کے ان علاقوں میں ہوتا ہے جہاں زمین پر مگسی نوابوں کا قبضہ اور ان کے اور کسان خاندانوں کے درمیان جبر کا رشتہ بلوچ سماج میں موجود جاگیرداری رشتوں کی خالص شکل میں عیاں ہوتی ہے۔

قبائلی نظام بلوچ قوم کے سماجی ارتقاء کے ایک مخصوص مرحلے میں وجود میں آئی جس کا بنیادی مقصد قبائل کو قیادت فراہم کرنے کے ساتھ قبائل کی مشترکہ معاشی و سماجی مفادات کا تحفظ، اندرونی و بیرونی خطرات کا مقابلہ کرنا اور قبائل میں انصاف کے نظام کو مضبوط بنیادوں پر قائم رکھنا تھا۔ ابتدائی عہد میں قبائلیت کی بنیاد زرعی زمین اور چراگاہوں کی مشترکہ ملکیت پر ہوتی تھی اور قیادت کا چناؤ جمہوری عمل کے زریعے ہوتا تھا۔ قبیلے کے افراد ملکر ایک قابل، سمجھدار، اور بہادر شخص کو سردار کی زمہ داری سونپ دیتے تھے۔ یوں سردار کا عہدہ ایک رعایت یا استحقاق ہونے کے بجائے زمہ داری ہوتی اور اس کے کمزور یا طاقتور ہونے کا دارومدار سردار کی نجی ملکیت کے بجائے قبائلی عوام کے اعتماد پر ہوتا۔

عوام کی حمایت اور مشترکہ ملکیت پر کھڑی یہ جمہوری نظام جو اپنے ابتدائی دنوں میں قدیم کمونزم کی خصوصیات رکھتی تھی مختلف اندرونی اور بیرونی عوامل کے زیر اثر سردار کے ہاتھوں نجی ملکیت کے ارتقاز پر منتہج ہوا اور سردار اپنے طاقت کیلئے قبیلے کی حمایت کے بجائے نجی ملکیت پر انحصار کرنے لگے۔ برطانوی سامراج نے قبائلی سماج کی سابقہ ترقی پسند اور جہوری روایات کو مکمل طور پر لپیٹ کر قبائلیت کو ایک استحصالی نظام میں تبدیل کر دیا ۔ سردار وں کے ساتھ بالادست طبقے میں نواب کے ٹائٹل کا اضافہ ہوا۔ سردار اور قبائلی عوام کے درمیان عزت و احترام اور برابری کا رشتہ حاکم اور محکوم کے رشتے میں تبدیل ہو گیا۔ برٹش راج نے 1901 میں فرنٹیرز کرائمز ریگولیشن نافذ کرکے سرداروں کو نہ صرف مضبوط کیا بلکہ ان کو مالی مفادات اور بڑی بڑی جاگیروں سے نوازا۔ اس طرح سرداروں کے ہاتھوں دولت کے ارتکاز کا جو عمل تاریخی طور پر سست روی سے جاری تھا اسے انگریز سامراج نے ایک تاریخی جست کے زریعے باقائدہ طور پر جاگیرداری بنیادوں پر استوار کر لیا۔

انگریز سامراج کے اس خطے سے نکلنے کے بعد ان کے جانشین فوجی و سول حکمران طبقے نے اپنی غیر جمہوری تسلط کو برقرار رکھنے کے لے قبائلی سرداری نظام کو تقویت دی اور انگریزوں کی طرح عوام کو دبانے کے لے سرداروں کو معاشی, سیاسی, انتظامی اور سماجی حوالے سے طاقتور بنا دیا۔ جس سے بلوچستان میں نہ صرف جمہوری روایات پنپ نہ سکے بلکہ صوبے میں سماجی, انسانی اور معاشی ترقی بھی نہ ہوسکی۔ انگریزوں اور ان کے بعد سول و فوجی اشرافیہ کے زیر دست زمین اور دوسرے زرائع پیداوار پر سرداروں اور نوابوں کی بالادستی مزید مستحکم ہو گئی اور اسطرح بلوچ سماج کی طبقاتی بنیادیں استوار ہوئی ۔ اس طبقاتی تقسیم کے ایک سرے پر سردار، نواب ان سے منسلک پیداگیر گروہ اکھٹا ہونے لگے تو دوسرے سرے پر بزگر شوان، روزنداری پر کام کرنے والے محنت کش اور کم سے کم اجرت پر گزارہ کرنے والا ملازم طبقہ جن کے پاس اپنے محنت بیچنے کے علاوہ باقی تمام سابقہ قبائلی زرائع پیداوار مسدود ہوتے گئے۔

سردار و نوابوں اور فوجی و سول بیوروکریسی کی ملی بھگت سے بلوچستان کی سیاست، معیشت، انتظامیہ سمیت تمام شعبوں میں گزشتہ 73 سالوں سے اصلاحات کا رستہ منظم طریقے سے روکا ہوا ہے جس سے بلوچستان کے عوام اکیسویں صدی میں بھی زندگی کی بنیادی ضرورتوں سے محروم ہیں جبکہ عدل کا مساویانہ نظام، سیاسی آزادی اور بنیادی انسانی حقوق کا تصور ہی محال ہے۔ جدید سرمایہ دارانہ ریاست کے برعکس جس کاایک فریضہ سرمایہ دارانہ طرز پیداوار کے سامنے حائل رکاوٹوں کا ہٹانا ہے بلوچستان جیسے خطوں میں قدیم طرز پیداوار اور بالادستی کے روایتی ڈھانچوں کا سہارہ لینے پر مجبور ہے۔ بلکہ ریاست بہت سی جگہوں پر اپنے کردار سے دست بردار ہوجاتی ہے اور یہی سردار و نواب ریاست کا روپ دھار لیتے ہیں۔

بلوچستان میں جھل مگسی ایک ایسا ہی علاقہ ہے جہاں نسلوں سے قبائلی حکمران خاندان اپنے آپ میں ریاست بن چکی ہے۔ انتظامی و عدالتی عہدے دار ملکی قانون کی پابند ہونے کے بجائے مقامی نوابوں کے احکامات پر عمل پیرا ہیں۔ جھل مگسی کا شمار بلوچستان کے پسماندہ ترین اضلاح میں ہوتا ہے جہاں پسماندگی معاشی ڈھانچوں سے نکل کر سماجی اور سیاسی ڈھانچوں میں سراعیت کر چکی ہے۔ زرعی زمینوں پر قبضہ، تشدد، خواتین کا اغوا اور غیرت کے نام پر قتل معمول کے واقعات ہیں۔ تمام زرعی زمینیں تقریبا نواب خاندان کے قبضے میں ہیں جنہیں بھائیوں نے آپس میں تقسیم کیا ہوا ہے اور ان کی منشا کے بغیر کوئی بھی خاندان زمین پر رہنے اور محنت مزدوری کرنے کا حق نہیں رکھتا۔ سالوں زمین پر آباد خاندانوں کو بے گھر کرنا اور ان سے جدی پشتی زمینیں ہتھیانا ان کیلئے بڑی بات نہیں۔ ریاست کے نوابوں کے ہاتھوں یرغمال ہونے کی وجہ بنیادی انسانی حقوق جن کی ضمانت ملکی آئین دیتا ہے سرے سے وجود ہی نہیں رکھتے۔ اسی طرح سیاسی اختلاف کی بھی کوئی گنجائش نہیں۔ 2013 میں مگسی نوابوں کے خلاف آزاد امیدوار عبدلفتاح مگسی کا دن دہاڑے قتل اور ان کے قتل میں نامزد ملزمان کے خلاف ریاست کی خاموشی ایک واضح مثال ہے ۔

طاقتور نواب خاندان کی جانب سے زمین پر قبضے کے خلاف بر سر احتجاج خیرالنسا اور ان کے خاندان کی کہانی نوابوں کے زیر دست عام عوام کی روز مرہ کی کہانی سے مختلف نہیں۔ ان کا تعلق جھل مگسی کے یونین کونسل میر پورسے ہے۔ میر پور بلوچستان کے ان سینکڑوں دیہاتوں میں سےایک ہے جہاں کی آبادی خشک سالی سے زرعی زمینوں کی پیداوار ختم ہوجانے کے سبب قریبی علاقوں میں ہجرت کرتے آرہے ہیں۔ خیرالنسا کے خاندان کے مطابق وہ بھی انہیں حالات سے دوچار صحبت پور ہجرت کرچکے تھے لیکن جب وہ واپس اپنی زمینوں کی طرف لوٹے تو ان پر قبضہ ہو چکا تھا۔ انہوں نے مقامی نوابوں کے اقتدار کو ماننے سے انکار کرتے ہوئے عدالت سے رجوع کیا اور اپنے آبائی زمینوں کی ملکیت کا حکم نامہ حاصل کر لیا ۔ لیکن عدالتی حکم نامے کے بعد انہیں زمین کا قبضہ ملنے کے بجائے مزید جبر و تشدد کا سامنا کرنا پڑا۔خاندان کا سربراہ ایک جھوٹے مقدمے میں پابند سلاسل ہے اور کمسن خیر النسا کو اسی جرم میں ایک طویل مدت تک حبس بے جا میں رکھا گیا ۔متعلقہ زمین اب بھی مگسی برادران کے قبضے میں ہے اور متاثرہ خاندان بر سر احتجاج قانون کی عملداری کی دہائی دے رہا ہے۔

جھل مگسی سمیت بلوچستان کے کسی بھی علاقے میں جاگیردار نوابوں اور سرداروں کے زیر دست کسانوں اور چھوٹے زمینداروں کی زمین سے بے دخلی، اغوا اور قتل کوئی نئی بات نہیں۔ سرکار کے ہم پلہ قبائلی سردار و نواب بلوچستان میں بسنے والے محکوم عوام کے ساتھ ہر روز ایسے واقعات کا ارتکاب کرتے ہیں اور اس کام کیلئے انہیں حکومتی مشینری دستیاب ہے جبکہ طبقاتی نظام عدل جس کے شکنجے میں ایک غریب روٹی چوری کرنے کے جرم میں سالوں سڑتا رہا ہے مگر طاقتور نواب اور ان کی اولادیں جسمانی تشدد، اغوا اور قتل جیسے سنگین جرائم کر کے بھی دندناتے پھرتے ہیں۔ایسے واقعات ریاست کی حقیقت کو واضح کرتی ہیں جو اپنے آئین اور قانون پر عمل درآمد نہیں کرواسکتا ہے اور اپنی وجود کو برقرار رکھنے کے لیئے سماج کے اندر موجود جابر اور استحصالی قوتوں کا سہارا لیتا ہے ۔ ان قوتوں کے خلاف مختلف شکلوں میں ابھرنے والی سیاسی مزاحمت اسی جبر کا رد عمل ہے جس کے رجحانات بلوچستان میں آئے روز دیکھے جاسکتے ہیں۔

بلوچستان کے زرعی علاقوں میں دولت کی سرداروں اور نوابوں کے ہاتھوں ارتکاز کی ایک شکل زمین کی ملکیت کا ارتکاز ہے جہاں پر طاقتور قبائلی ایلیٹ ریاستی اداروں کی ملی بھگت سے اپنے مقبوضہ زمین کی حدود میں مسلسل اضافہ کر رہے ہیں۔ پٹ فیڈر جیسے نہری آبپاشی نظام نے پہلے سے بنجر زمینوں کی قدر یکدم تبدیل کردی ہے جس سے ان بالادست سردار و نوابوں کے لیئے زمیں کی اہمیت مزید بڑھ گئی ہے جسے وہ کہیں پر قانون اور اسے نافذ کرنے والے اداروں کی مدد سے قبضہ کر رہے ہیں تو کہیں پر نجی کارندوں کے ہاتھوں لوگوں کو زرائع پیداوار سے بے دخلی کی شکل میں۔ اس طبقاتی تقسیم کے ایک جانب سردار و نوابوں کے ہاتھوں زرائع پیداوار کا تیزی سے ارتکاز اور بے گھر اور بے آسرا عوام کی تعداد میں اتنی ہی تیزی سے اضافہ ایک بڑھتے ہوئے طوفان کا پیش خیمہ ہے جس کے بطن سے مزاحمت اور انقلاب کی نئی شکلیں پھوٹ سکتی ہیں۔ زرائع پیداوار پر قابض سرداروں اور زمین سے بے دخل عوام کے درمیان تصادم کی شکل اختیار کرتے تضاد کا واحد انقلابی حل زرعی ملکیت کی از سرے نو تقسیم ہے ۔ اس تقسیم کی ایک شکل زرعی اصلاحات ہو سکتی ہیں۔ البتہ ریاست پر غالب سردار اور نواب جو کہ خود اس تضاد کے پیداوار ہیں ان سے زرعی اصلاحات کا مطالبہ ایک سہانے خواب کے علاوہ کچھ نہیں۔ اس تضاد کو اسی طبقے کے ہاتھوں حل ہونا ہے جس کے منہ سے نوالہ، سر سے چھت اور پیروں تلے زمیں چھین لی گئی ہے ۔ جن کے پاس مارکس اور اینگلز کے الفاظ میں “کھونے کے لئے زنجیروں کے علاوہ کچھ نہیں”۔ یہی طبقہ بلوچستان میں طبقاتی جد وجہد اور سماجی انقلاب کے علمبردار ہیں جس کیلئے ضروری ہے کہ زمین سے بے دخل عوام طبقاتی شعور کی جانب گامزن ہوں اور دیگر پسے ہوئے طبقات کے سا تھ متحد ہو جائیں اور مراعات یافتہ قومی بورژواوزی قیادت کے ہاتھوں استعمال ہونے کے بجائے سماجی و معاشی برابری اور انصاف کے انقلابی جد وجہد کی قیادت خود کرتے ہوئے اسے منزل مقصود تک پہنچائیں ۔

کریمہ : انقلاب کی ایک داستان

گزشتہ دو دہائیوں میں بلوچستان جن تاریخی تبدیلیوں سے گزرا ہے ان میں عورت کے روایتی کردار کی تبدیلی اہم ترین تبدیلیوں میں سے ایک ہے۔ بلوچ عورت جس کی بہادری کے قصے اکثر اساطیری کہانیوں کے حوالوں سے مردوں کی زبانی بیان ہوتی تھی پہلی مرتبہ سیاسی منظر نامہ پر انقلاب کے نعرے کے ساتھ نمودار ہوئی۔ بانک کریمہ ان نمایاں خواتین میں سے ایک تھیں جنہوں نے بلوچ سماج میں مرد اور عورت کے صنفی تفریق پر مبنی روایتی مقام کو چیلنج کرتے ہوئے سیاسی عمل کا مردوں کیلئے مخصوص ہونے کے تصور کو نہ صرف رد کیا بلکہ سیاست میں عورتوں کے قائدانہ کردار کی بنیاد ڈالی ۔ اپنے ہم عصر دیگر خواتین جہد کاروں کی نسبت کریمہ ایک قدم آگے گئیں ، انہوں نے بلوچستان کے کونے کونے میں عورتوں کے ساتھ روابط قائم کر کے ان میں سیاسی بیداری کا تاریخی فریضہ سر انجام دیا اور خود اس بیداری کا اور بلوچ خواتین کے اس نئے کردار کا کلیدی چہرہ بن گئیں۔ ۲۲ دسمبر کو کینیڈا کے شہر ٹورنٹو میں ان کی گمشدگی اور پراسرار حالات میں شہادت کے بعد بلوچستان بھر میں عوامی غم و غصہ اور خاص طور پر بلوچ خواتین کا ان کے ساتھ جزباتی و سیاسی وابستگی اس بیداری کا پہلا عوامی اظہار تھا۔ لوگوں کی ایک بڑی تعداد کا سیاسی جبر کے ماحول کے باوجود کریمہ کیلئے احتجاجی مظاہروں کی شکل میں باہر نکلنا اس حقیقت کا غماز ہے۔

بلوچستان میں جدید قومیت کی بنیاد پر سیاست کا آغاز ایک صدی قبل پدر شاہانہ قبائلی ماحول میں مردوں کی قیادت میں ہوا۔ سیاسی اور سماجی معاملات مردوں کا دائرہ کار ہوا کرتی تھیں اور خانہ داری عورتوں کیلئے مخصوص ہوا کرتی تھی۔ سامراجی سرپرستی میں بننے والا قبائلی جرگہ سب سے اہم سیاسی ادارہ بن چکا تھا جہاں عورتوں کی کوئی نمائندگی نہ تھی اسی طرح جو سیاسی ادارے سامراجی بالادستی کی مخالفت میں مزاحمت کی عملبردار بن کر ابھرے انہوں نے بھی قبائلی عورت کی حالت زار تبدیل کرنے کیلئے کوئی ترقی پسند لائحہ عمل اپنانے کے بجائے انہی پدر شاہانہ سماجی روایات کے ساتھ ہی مزاحمتی سیاست کی بنیاد رکھی۔ اس طرح جدید بلوچ قومی سیاست اپنے ابتدا ہی سے مردوں کیلئے مخصوص سرگرمی رہی ہے ۔ اگرچہ بلوچ تاریخ میں ایسی عورتوں کے انفرادی کرداروں کو رد نہیں کیا جاسکتا جنہوں نے علاقائی سطح پر یا اپنے مخصوص قبائل میں مردوں کی نسبت سیاسی اور سماجی طور پر نمایاں کردار نبھایا لیکن عوامی سطح پر سیاست اور سماجی معاملات مجموعی طور پر ہمیشہ سے مردوں کیلئے مخصوص رہے ہیں۔ خواتین کا کردار اگرچہ کچھ تاریخی واقعات میں اہم، مگر ثانوی ہی بتایا جاتا ہے۔ اول، تو ان کا ذکر ہمیں ما سوائے لوک داستانوں میں نمایاں اور تفصیلی طور پر نہیں ملتا اگر کہیں ان کی بات کی بھی گئی ہے تو فقط حاشیوں میں۔

گزشتہ نصف صدی کے دوران خاص طور پر بلوچ سماج میں ہونے والے تیز رفتار تبدیلیوں کی وجہ سے مرد اور عورت سے منسوب روایتی صنفی کردار تبدیل ہوچکے ہیں۔ یہ تبدیلی خاص طور پر مکران میں واضح طور پر نظر آتی ہے جہاں قبائلی سماجی ڈھانچہ تقریباََ ختم ہوچکا ہے اور اس کی جگہ مشترکہ خاندانی نظام نے لے لی ہے۔ بلکہ اب تو مشترکہ خاندانی نظام بھی بحران کا شکار نظر آتا ہے۔ بہرحال، قبائلی نظام کی نسبت خاندانی نظام میں سماجی اقدار کو انفرادی سطح پر نافظ کرنے کا نظام کمزور ہوتا ہے، جس کی وجہ سے اندرونی معاشی یا سماجی دباؤ کی صورت میں یا کسی بیرونی دباؤ کی وجہ سے مروجہ اقدار سے انحراف ممکن ہو پا تا ہے ۔ بیسیوں صدی کے نصف کے بعد مکران کے معاشی ڈھانچے میں ہونے والی تیز رفتار تبدیلیوں نے اس انحراف کیلئے راہیں ہموار کیں۔ جبکہ عورتوں کیلئے سرکاری ملازمتوں کی شکل میں غیر زرعی معاشی مواقع اور اس کے ساتھ ساتھ تعلیم تک رسائی نے اس انحراف کو ایک معاشی و سماجی ضرورت میں تبدیل کر دیا ۔ بلوچستان کے دیگر حصوں میں بھی ملتے جلتے اثرات کے تحت روایتی قبائلی نظام کمزور ہوا ہے ۔ معاشی و سماجی طور پر زیر دست طبقوں کیلئے سابقہ سماجی نظام سے انحراف سرکاری ملازمتوں اور قریبی شہروں یا بیرونی ممالک میں ہجرت کی شکل میں ممکن ہو پایا جس کہ وجہ سے جہاں عام لوگوں کیلئے طبقاتی حالت سدھارنے کے مواقع پیدا ہوئے وہیں عورتوں کیلئے سابقہ قبائلی نظام کے روایات سے آزادی بھی ممکن ہوئی۔

کسی بھی ماحول میں جہاں ایک طرف بدلاو اور حرکت کے ڈھانچے اور ان سے جڑے عوامل موجود ہوتے ہیں، وہیں پرانے اور متروک شدہ ڈھانچوں کی باقیات بھی موجود ہوتے ہیں جن کی زوال پزیری کے سبب سماجی ترقی کے عمل میں پیدا ہونے والا ٹھراو، بلکہ سماجی سڑاند، بیماری کی حد تک معاشرے کو متاثر کرتا ہے۔ سماجی تبدیلی، نئے اور پرانے ڈھانچوں کے درمیان جدل کی داستان طویل اور وقت طلب ہے اگر صدیوں کی بات نہ بھی ہو تو کم از کم دہائیاں اس میں کھپ جاتی ہیں۔ نوآبادیاتی جبر اس پسماندگی کی صورتحال میں نہ صرف ایک اضافہ ہے بلکہ اس کی وجہ سے سماج کی فطری ارتقا کی شکل تبدیل ہو جاتی ہے اور سماجی تبدیلی کا عمل اندرونی طور پر پیچیدگی کا شکار ہوجاتا ہے۔ سیاسی جبر و تشدد اور طاقت کا بلا دریغ استعمال نو آبادیاتی صورتحال کی بنیاد ہیں جس سے نہ صرف زیر دست سماج اندرونی طور پر گھٹن کا شکار ہوجاتا ہے بلکہ محکوموں کی نمائندگی کرنے والے سیاسی و سماجی گروہوں میں بھی رجعتی رویوں کے فروغ کا سبب بنتا ہے۔

ہم دیکھتے ہیں کہ روایتی قوم پرست سیاسی اداروں جن میں پارلیمانی پارٹیاں سرفہرست ہیں ان کی سیاسی ساخت ، تصورات اور پالیسیوں نے عمومی طور پر سماج میں روایت پرستی کو فروغ دیا جس کا اظہار ہمیں ان کی سیاست میں قبائلیت اور اس سے جڑے عورتوں کے روایتی کردار کے دفاع و فروغ کی صورت میں نظر آتا ہے۔ اگرچہ کہیں کہیں معاشی و سماجی حالات کے دباؤ کے تحت عورتوں کے حقوق ان پارٹیوں کے ایجنڈے میں شامل ہو جاتے ہیں یا پھر لبرل جمہوریت سے بظاہر متاثر، لیکن اس کی روح سے عاری، ریاستی آئین کے تقاضوں کو پورا کرنے کیلئے چند عورتوں کو برائے نام نمائندگی دی جاتی ہے لیکن اس کے ساتھ ہی اس بات کا مکمل خیال رکھا جاتا ہے کہ ان کی سیاست عورت کے روایتی کردار میں کسی قابل ذکر تبدیلی کا سبب نہ بنے۔ ان کی یہاں عورتوں کی آزادی اور خود مختاری کا انقلابی عمل برائے نام یا ٹوکن ازم تک ہی محدود رہتا ہے اور مجموعی طور پر، کوشش یہی رہتی ہے کہ سماجی طور پر عورتوں کی زیردست حیثیت کو سیاست میں بھی انہی بنیادوں پر برقرار رکھا جاسکے تا کہ سماج میں موجود بالادستی کا نظام جس سے وہ برائے راست مستفید ہو رہے ہیں، اسی حالت میں برقرار رہے ۔ کریمہ جیسے انقلابی کرداروں کے ابھرنے کیلئے روایتی پارلیمانی قوم پرستی کے مقابلے میں ایسی سیاسی قوتوں کو ابھرنا لازم تھا جو سماج میں مروج بالادستی کے نظام کا خاتمہ چاہتی ہوں اور زوال پزیر قبائلی اقدار کا دفاع کرنے، یا اس حوالے سے شد و مد میں مبتلا ہونے کے بجائے نسبتا ترقی پسند قومی۔جمہوری اقدار وسیاست کی ترویج کریں ۔

بلوچ مزاحمتی سیاست کے حالیہ ابھار کے عروج پر بی ایس او نے جہاں دوسرے کئی روایتی سیاسی و سماجی تصورات کو مسترد کیا وہیں کریمہ کے ہاتھوں تنظیمی قیادت سونپ کر عورتوں کے سیاسی کردار کو تبدیل کرنے کیلئے وہ تاریخی کردار ادا کیا جو روایتی قوم پرست سیاست کبھی نہیں کر سکتی تھی۔ کریمہ کی قیادت اگرچہ بلوچ قومی سیاست کی پدرشاہانہ ساخت کو مکمل طور پر تبدیل نہیں کرپائی، لیکن عورت کے سیاسی کردار کو انقلابی بنیادوں پر تبدیل کرنے کا سبب بنی جس سے بلوچ عورتوں کیلئے سیاسی عمل میں شمولیت کیلئے نہ صرف راہیں کھلی بلکہ عورت کی قیادت کی ایک مثبت مثال بھی قائم ہوئی۔ اس قسم کی جدت پسندی جس کا مظاہرہ ہمیں مزاحمتی سیاست کے ابتدائی دنوں میں واضح نظر آتا ہےعوامی تحریکوں کے لیئے خود بھی اہم ہوتی ہے ۔ روایتی مفاد پرست سیاست کے برعکس جس کا انحصار حکمران طبقوں کی خوشنودی پر ہوتا ہے مزاحمت سیاست کی روح عوام میں بسی ہوتی ہے ۔ عوامی حمایت کی ضرورت کے پیش نظر ان کیلئے رائے عامہ کے دباؤ کو نظر انداز کرنا زیادہ دیر تک ممکن نہیں ہوتا جس کے سبب ان میں عمومی رجحان نسبتاََ جمہوری اور ترقی پسند ہوتا ہے۔استعماری رویے کے عین متضاد!۔

استعمار اور عوام کی کشمکش، محض جنگ کے میدان میں نہیں ہورہی ہوتی، بلکہ ثقافتی میدان اس لڑائی کا ایک اہم تھیٹر ہوتا ہے۔ قابض چاہتا ہے کہ وہ ایسی اخلاقیات کو فروغ دے جس میں سماجی کنٹرول، جو کہ بنیادی طور پر اس کے غلبے کا ضامن ہے، کو کوئی خطرہ نہ ہو۔ بطور ایک نوجوان لڑکی کے، کریمہ نے اپنی سیاست و شخصیت سے اگر ایک طرف بلوچ سماج کی فرسودہ روایات سے بغاوت کی تو یہ اس سے بڑھ کر استعماری روایات کی بت شکنی بھی تھی۔ جہاں سیاست کو طاقت کے غرور یا اس کی چاہ میں اندھے مردوں کا کام سمجھا جاتا ہے نہ کہ جوان لڑکیوں کا۔ کریمہ نے اپنے مکمل وجود سے ان لغو سامراجی تصورات کو یکے بعد دیگرے پاش پاش کیا اور اپنی سیاست سے غالب ثقافتی معیاروں پر سوال اٹھائے اور نہ صرف ایک متبادل دیا، بلکہ اس پر چل کر بھی دیکھایا۔ یقیناََ یہ ایک انتہائی مشکل سفر تھا، لیکن اس عمل میں کریمہ نے بےشمار ساتھی، ہمراہ، اور ہمدرد پیدا کیئے اور مختصر عرصے میں نوجوان خواتین کی ایک تحریک کھڑی کر دی۔ بلاشبہ انہوں نے تاریخ کی روانی کو نہ مساعد حالات کے باوجود ایک جاندار دھکا دیا اور تاریخ میں عورت کے انقلابی کردار کی ایک مثال پیش کی ۔ جس طرح تاریخ کی پیش رفت کے بارے میں مارکس اور اینگلز اپنے تحریر “مقدس خاندان” میں لکھتے ہیں ” تاریخ انسان کی اپنے مقاصد کے حصول کے جد وجہد کے سوا کچھ نہیں” اسی طرح کریمہ نے اپنے انقلابی کردار سے نئی تاریخ رقم کردی ۔

بلوچ خواتین کی سیاسی و سماجی آزادی کا سفر بے شک طویل ہے، جس کا آغاز سیاسی محاذ پر اگرچہ بانک کریمہ جیسے انقلابی کردار ایک دہائی قبل کر چکے ہیں لیکن سماجی سطح پر آج بھی بلوچ خواتین دوہرے جبر کا شکار ہیں ۔ اس دوہرے جبر کی ایک شکل ریاستی سطح پر قومی اور انسانی حقوق کی پامالی کی صورت میں جبکہ اندرونی طور پر بلوچ سماج کی عورت مخالف روایات اور عورتوں کیلئے یکساں مواقع کی عدم موجودگی کی شکل میں ہمیں نظر آتا ہے۔ کریمہ کی سیاسی جد و جہد اگرچہ اس دوہرے جبر کو ختم نہ کر سکی البتہ انہوں نے اپنے تاریخی کردار کے زریعے بلوچ عورت کیلئے جد و جہد کا رستہ متعین کر دیا۔ کریمہ اپنی زندگی میں ہی سینکڑوں خواتین کو صنفی اور قومی و انسانی حقوق کی جد وجہد کا حصہ بنانے میں کامیاب ہوچکی تھی۔ ان کی ناگہانی شہادت نے ان کی زندگی اور جد وجہد کو بلوچ عوام بلعموم اور خواتین کیلئے بلخصوص ایک ناقابل فراموش باب میں تبدیل کر دیا جو کہ آنے والی نسلوں کیلئے رہنمائی کا سبب بنےگا۔

Towards the Creation of Professional Revolutionaries

Julio Antonio Mella

The fulfilment of social necessities has been the reason for the creation of professions. The artificial necessities created by the actual regime of oppression and inequality will be considered useless by future generations. What is more, other necessities will persist by being perfected and adjusted to the historical moment. For example, we will always have a necessity for a laborer to dominate nature in the mine, sea or forest, while, it may be, and it is desirable to eliminate the necessity for the merchant, soldier and the entangler of justice in the same way that the slave owner and other parasites from previous epochs were eliminated. (It is true that these have been substituted by the bourgeois and the priest, but this same substitution announces their extinction.) There is a profession that has existed in other epochs that is of utmost importance in the agitated era of today. I’m referring to the professional revolutionary. Although ignored, this profession has been fundamental in fulfilling the necessity of social progress. Along with the miner, wise inventor, electrician, pedagogue, and railroad driver we can find, without any doubt, the revolutionary. Before, there was Graco, Spartacus, Marat, Robespierre, Bolivar, Marx, Lenin, and Sun Yat Sen… Slave liberator, patron of the agrarian revolution, liberator of the bourgeoisie from the yoke of feudalism or of the proletarian from the yoke of the bourgeoisie. We can grasp that his duty, his trade, his profession is the same, only in a different stage.

The principal characteristic of the revolutionary is their absolute comprehension and total identification with the cause they defend. The ideas they embrace are converted into generators of a social energy. The ignorant are accustomed to classifying them as fanatics for this reason. Reactionaries, led by hate and fear, fill the revolutionary with insults. There has been no man more insulted than Lenin in all this century. Likewise, there has been no other that approached brilliance, sanctity, and ethically considered heroism in the same length as the leader of the III international.

“They recognize the infiniteness of human action. Like Zarathustra, they understand the meaning of the earth. They are saints of this earth, hero of man and geniuses of the smallness of the moment.”

If the professional revolutionary is a Marxist, for example, they can apply Marxism to all problems. Enemies are amazed in front of the power of its truth, but they dare not accept it despite considering it true and refusing to attack it openly. They give the monstrous sensation of locomotives advancing through virgin jungles and populated cities. The professional revolutionary may arrive at martyrdom or what is considered as such by strangers. Furthermore: every minute in his unfamiliar life would be a minute in hell for countless others. They may die in the gallows, in torture, or reviving the slaughter of the circus. They accept all things with the same naturalness that the baseball player accepts his earnings: it is their profession and nothing more. For this reason, when the public or the public opinion applaud any of their daily gestures of heroism they consider it so strange as if they were watching a public applaud a singer after hearing their voice from a record player.

Their actions, like the voice in the record, is not theirs, it is rather a reflection and inspiration of the social environment. Like Bernard Shaw remembers in Saint Joan, they are dragged perhaps without understanding the reason.

They recognize the infiniteness of human action. Like Zarathustra, they understand the meaning of the earth. They are saints of this earth, hero of man and geniuses of the smallness of the moment. They do not aspire for transcendentalism. They have pride in being a bridge for the rest to advance. They will most likely not believe in the Nietzschean superman. But they recognize the progress made from the worm to the monkey and from the latter to man. In the same manner, historical materialism has taught them the steps from the feudal to the bourgeoisie and from the latter to the proletarian.

After having died completely consumed and drained like a log during a fire, they die satisfied recognizing the utility of their action. They have been violently burned. But they have illuminated many and warmed up the cold social atmosphere.

If you are a student it is possible that you do not comprehend your profession. You may have seen, if you are sincere, that medical knowledge is worthless if a vast majority of ills are produced by misery and social injustice.

You may have seen that all juridical theories are nothing in the interior of the ruling class. You may have seen that the conquests of modern industrialization are worthless if the vast majority of the population still lives in the conditions of a caveman. So, dear comrade, if not one of the professions offered in bourgeois universities speak to you, become a revolutionary. Go to the prisons in search of your doctorate.

If you are worker, if you comprehend that your 8 to 16 hours of work represent exploitation without limits, understand that neither you nor society will ever receive the earnings of your labor, if you comprehend that despite all the strikes you will always be exploited, become a revolutionary. The oppressed are looking for these professionals that will fulfill the great necessity of the moment. It is the profession without competition, the triumphant profession, the profession that every honest man must perform.

Courtesy: marxists.org

Being Indigenous in Karachi

اردو میں پڑھنے کیلئے کلک کریں

Bahria Town and Expropriation of Sindhi & Baloch Goths  

The indigenous people of Karachi, mainly Sindhi & Baloch communities, living in rural villages called goths, are fighting for their land which is being forcibly occupied by the capitalists organised behind the real estate tycoon Malik Riaz. The expropriation* of these originally agricultural and pastoral communities from their land was initiated by the British colonial empire in the nineteenth century by enforcing colonial property relationships that encourage enclosure and private property on communal land. This historical process, the expropriation of indigenous Sindhi & Baloch Goths, is now reaching its conclusion with Bahria Town’s forceful removal of all barrier (both physical and social) to achieve complete annihilation of the agricultural communities of rural Karachi, to create new landscapes for the further growth of the capital that they have accumulated in the parallel economy – the shadow economy of tax evasion, bribery and kickbacks. Black money must find ways to enter the formal economy to continue its expansion.   

Being Indigenous in Karachi

Sindhi & Baloch agricultural communities claim of being indigenous in Karachi. They maintain that their history in the area dates back prior to the walled settlement that latter turned into an important colonial port city, and later went to become the first capital of Pakistan. The city of Karachi developed from within the walls of the fortified settlement of Hindu merchants built in 1729, which after the British occupation in 1839, started growing into a center of colonial trade through its natural harbor and attracted migrants from across the region. Within a decade of colonial rule, the town grew out of its walls and new working-class suburbs started to grow between the old city and the Lyari river that formed the western boundry of the town. The in-migration brought about by the increasing colonial trade through the port resulted in a surge in the population, estimated around 14000 at the time of British occupation, to 57,000 by 1856 and over 100,000 by 1890 earning Karachi the status of a city.    

Much before this population surge and the transformation of the fortified town into a colonial port city, these Sindhi & Baloch tribes have had populated the fertile riverbeds and the rain fed landscape of Malir valley besides the fishing villages along the natural harbor. The tribes were later joined by communities from Trans-Makkuran in the eighteenth and nineteenth century; with time they become a part of the natural economy of the region. The early tribal settlements and the in-migrants before British invasion collectively form the indigenous population of Karachi, most scholars agree.  

Many of the Sindhi-Baloch goths facing expropriation in the hands of Bahria Town find their lineage to these pre-colonial inhabitants of Karachi who could not be detached from the land during the colonial development of the city. These early agricultural and pastoral communities, for whom the land on which they were living was an inalienable mean of subsistence, can be designated as indigenous in relations to the other communities who settled in Karachi during its development into a colonial port city and were mainly affiliated with the port economy instead of work related to agriculture and livestock raising.   

Colonial Legacy of Expropriation

Baloch communities who settled along the Lyari river in late eighteenth century became the first to be expropriated, that is to lose their relationship with land as the means of subsistence, during the urban sprawling of colonial Karachi. These Baloch goths that later turned into working-class suburbs became the center of urbanization. By the time of partition, the rural economy of Lyari had diminished considerably and soon vanished in the face of the intensive in-migration during 1950s. Unlike the indigenous goths of Lyari, the impact of the urbanization and the post-partition economic structures, were initially minimal on the rural villages of Malir. Although, the temptation to part ways with land have been present since the early days of the partition among ‘Waderas’ – clan heads who dominated the social structure of the village and were legally entitled to sell the communal land – mainly due to their changing status from village heads to independent landowners and petty capitalists with increasing shares in the post-colonial political economy of Karachi.   

Wadera is the top rank feudal title in the structure of dominance at village level among the Sindhi & Baloch agricultural communities. In pre-colonial days, Wadera of a community belonging to larger tribal structure, has been either appointed directly by the tribal chief as his representative at village level or nominated by the villagers and endorsed by the chief as head of village community that formed a branch of the mother tribe. The independent Sindhi & Baloch communities who emerged during the eighteenth and nineteenth century, having no affiliation with any larger tribal hierarchy, organised themselves in non-tribal communal structures in the goths were normally led by a prominent personality endorsed by fellow villagers.  

These village heads became informal or ‘unofficial’ Waderas once private property was established over the communal land by the British empire through various colonial regulations that reshaped the property relations by enclosing the indigenous communities within the limits of the cultivated land; separating the non-cultivated grazing grounds, and bringing them in direct control of the colonial authorities; and entitling such figures to private ownership of the previously communally owned land considered to be part of the Goth. Non-cultivated land and the grazing grounds taken over by the colonial board of revenue was later given on lease to either the same tribes for their loyalty, or the in-migrating communities. The British during colonial rule used such land as bribe, the carrot in the proverbial ‘carrot and stick’ to control communities and strengthen the role of its loyalists. In the early twentieth century another colonial regulation paved the way for large private land ownership through ‘land consolidation’. Individuals who were leased small parcels of land at different sites were allowed to receive consolidated land at one place. The practice resulted in the creation of large estates and the growth of the landlord class.  

The Capitalists in the post-partition state – in Karachi’s case most of them being in-migrants who replaced the out-migrating Non-Muslim merchant class leaving behind a ready market for the newcomers – inherited the colonial property relations. The colonial legacy of land alienation was continued through privatisation of communal land and expropriation of the agricultural masses for the expansion of accumulation in an essentially non-capitalist space. Another wave of expropriation of the Sindhi-Baloch goths in rural Karachi began in 1960s with land reforms that resulted in large scale consolidation of property in the hands of the landlords coupled with the privatisation of the land held by the board of revenue to big industrialists and influential personalities, a process that continued sporadically until 2000 when under the new local government system, the land loot entered into a new phase setting ground for complete alteration of rural landscape.  

Bahria Town Karachi, A Phenomenon

General Perveez Musharaf’s dictatorship saw a new rise in arbitrary rule in Pakistan where the capitalists – commercial and politico-military elite, joined by ‘feudal lords’ of Sindh and ‘tribal chiefs’ of Balochistan who own big capitalist ventures besides their feudal-tribal titles – mainly relying on the parallel economy found new space for expansion of capital. Interestingly, this social group is frustrated with the growing role of the state functionaries who are at the same time rent seeking in their politico-economic behavior.  In other words, it seeks to ‘appropriate the appropriators’ by claiming a share of the profit being made both in the formal and informal economy. As a result, one often encounters state functionaries themselves as owners of massive capital. They have turned their offices positions into points of accumulation mainly through manipulation of the market. Of course, they have numerous advantages over those (market based) competitors who have to consult state functionaries in order to get past the bureaucratic barriers.  

This pattern of arbitrary rule, with a few intermittent breaks, only continued to create zones of exceptions for the capitalists: enabling them to bring-in their capital from parallel space to the formal economy and expand the accumulation beyond the limits of the market. Such zones of exception were created during early days of Musharaf rule when the new local government system enabled the district administration of Karachi to exercise land transfers in Sindhi-Baloch goths on massive scale. Takeover of the privatization process by the state functionaries being led by personnel who were at the same time also stake holders in the process, elevated the privatization of land beyond the limits of the market resulting in massive rent-seeking practices, shadowy transactions, and bogus claims that would be used to delegitimize the original claims of the indigenous people.  

Transformation of the role of state functionaries from regulators to market agents with personal business stakes helped ease the limits of the market. Further, they also lowered the barriers and boundaries between the regulated, taxed market and the unregulated parallel market which enabled the ever-growing phenomena of Bahria town, a city within a city, that is engulfing village after village with no end in sight. Using the might of the bourgeois accumulation of capital, Malik Riaz finds himself in the perfect position to do the necessary: he is able to resolve bureaucratic hurdles by putting proverbial ‘wheels to the files’, to get over the legal complications, he pays compensation, to build political consensus, by striking business deals with political and military leadership, and to improve his public image through highly compromised electronic media.  

The real-estate tycoon has combined all the essential components of a capitalist state and the bourgeoise interests into one place that would otherwise not been possible in the unnatural development of the political authority in the country. In this zone of exception, Bahria Town is continually expanding its direct domain by enlarging its physical boundaries, and its indirect domain by degrading the natural ecosystem, restricting the movement of indigenous people, disturbing the water and electricity supply to goths and finally, restricting the indigenous people into walled enclaves and using covert and overt force to compel them to relocate so that the housing project may expand to the entire rural landscape of Karachi.  

* Expropriation in Marx’s conception is specifically identified with “appropriation… without exchange,” i.e., appropriation minus the equality in all actual exchange relationships. Expropriation thus meant theft of the title to property. (Source: Monthly Review)

__________ 

Note: This article is a collective effort by Balochistan Marxist Review team.  

Marxist BSO: Revival of Progressive Politics in Balochistan

Pic: Public Domain

تحریر اردو میں پڑھنے کیلئے کِلک کریں۔

In a politically degenerating society, where the progressive forces are overpowered by the reactionary forces, students’ politics is one of the few remaining spaces where an enabling environment for the promotion of progressive organizational and ideational tendencies continue to exist. A section of reactionary forces dominating Baloch society exists in the form of Bourgeoisie nationalist cliques, which in turn are most often than not are led by the tribal elite, or the non-tribal & so-called ‘middle class’ whose commercial interests are deeply intertwined with their political position in the structures of governance. The bourgeoisie or middle-class Baloch nationalists, despite having shared interests, have historically divided the society on differences that revolve around personalities and their style of hegemony, rather than ideological orientations or even political strategies. Clusters of bourgeois groups then center around such figures to defend and promote their class, caste, and clan interests. The divide between Mengal, Bizenjo, Zehri and the so-called middle class of Makuran, is the on-ground manifestation of this rift between the growing privileged class that one can refer to as ‘non-industrial bourgeoisie’ of Baloch society.  

History of Baloch Students Organization is the history of progressive organizational tendencies of Baloch society itself. BSO developed and flourished in campuses during 50’s and 60’s; reached a critical mass by early 1970s. Soon after its decline began and the organization has since been a site of struggle between the progressive revolutionary forces, and the hegemonic currents of the bourgeoisie nationalism that insists that status-quo continues. In contradiction with the reactionary nationalism of tribal elite and the so-called middle class, the dominant outlook of BSO has always been progressive nationalism that helped the students’ politics to lean towards progressive, revolutionary forces and ideals in national and international struggles. Although, with the rise of reactionary ethnic-nationalism in the guise of opportunistic parliamentary politics during 1990s, enabled the national bourgeoisie leadership, most of them having been once a part of students’ politics, to extend their hegemony in the campuses. They knew exactly where transformative waves are created. Of course, this meddling of parliamentary nationalist leadership in BSO was an attempt to counter the progressive tendencies of the students. By reproducing and replicating the bourgeoisie structure of nationalism in the campuses, democratic, decentralized, and revolutionary potential of Baloch students could be curbed and pushed aside. Creation of parallel BSO groups that have been mere reflections of the mainstream political parties, in the form of the student-wings, is the manifestation of the bourgeoisie nationalist structures in the student space. Soon the student politics was also defined by senseless factionalism, fragmentation, and a total absence of an ideological compass.  

In this situation, Baloch students have a historical responsibility to organize in organic structures, whether under the banner of nationalism, socialism, or of both at the same time – an organizing principle which in fact defined BSO’s politics when socialist politics had not totally disappeared from people’s imagination here and world over. BSO can reflect, represent, and channel the interests of the lower stratum of the society against the privileged classes or the dominant stratum of the society. Therefore, it has the potential to challenge and keep a check on the forces leading the nationalist political superstructure.  

Baloch students must fight to achieve and sustain a structurally independent organization, a BSO that is not a mere extension of any national level structure of dominance. What we need is a political organization with empowered institutions that can take decisions, make independent alliances, chart out strategies and has the cadre to realize them on the ground. They must not hide behind opportunism by concealing their ideological affiliations and political tenets and should embrace organic alliances with other progressive and revolutionary forces fighting for the common objective: for a society without exploitation. A politics that is locally rooted but is universal in its ideals and scope. A Baloch student group which has the ability to interpret the society, explore its material history, understand the structures of exploitation, and has the ability to put together the means of struggle on the grounds of dialectical and historical materialism can perform this historical task. In short, the task at hand for a Marxist BSO, is to not only lead the students on a revolutionary pathway, but also to bring about the unity of students and the other progressive organizations of the masses.    

In their struggle for an ideologically clear and structurally independent BSO, the students will have to fight the depoliticizing tendencies as much as those traditional nationalist forces that tend to politically divide the students and the masses. Depoliticization in Baloch context is relatively a recent phenomenon, it partly resulted from the brutal victimization of political class of the society in the past decade. The selective victimization of the cadre by the state, on the one hand weakened the political class, and on the other provided opportunities for the growth of politically alienated structures and groups not only in the mainstream Baloch nationalist politics, but also within the students’ space, where it manifested itself in the form of students’ committees and councils. These students’ groups, initially created to be apolitical, could not escape the politicized structure & environment of the campuses that ultimately results in the political exposure of the students, which further produces internal tensions between the political and apolitical tendencies found in almost every such structure operating in the students’ space. A progressive BSO must ally itself with the political tendencies within such student committees and councils to fight depoliticization of campuses, a process that aims at weakening the political power of the students and by extension the masses. 

Along with fighting the internal structures of exploitation, it also becomes a historical responsibility of BSO to not only condemn social exclusion on the grounds of gender, race, ethnicity and religion, but also to fight such reactionary tendencies that divide the students and the masses and diminish their political role. The exclusion of women from political process, or their conditional inclusion particularly concerns students’ politics. Such patriarchal norms of politics are deeply rooted in the social and political structures, which are continually being reproduced by the nationalist political parties. They tend to keep women’s role defined and dominated by the male leadership. A progressive BSO should not only condemn the anti-women norms in the social and political structures but should also fight the challenges of patriarchy through institutional means by introducing alternative structures that provide the students to play their historical role irrespective of their gender identity.  

The struggle against exploitation based on national identity, class, race, ethnicity, gender or religious beliefs is a collective fight that needs to be fought alongside the subjugated masses in their own space as much as in the collective political field. Students being one of the most dynamic political force of the society must organize on progressive lines within their campuses and join the masses in their struggle for emancipation.  

BSO existing in multiple parallel structures collectively forms the students’ political space in Baloch society. The influence of reactionary nationalist forces in the form of their students-wings could not completely subdue the progressive essence of the students’ political space, neither the induced depoliticization of nationalism and students’ politics could prevent the formation of organic progressive political structures. The resurgence of progressive structures within the students’ politics in the form of a Marxist BSO is the result of the contradictions existing between the progressive, revolutionary tendencies, and the reactionary hegemons. It is our historical task, as Baloch students, to lead a revolutionary political process to resolve that contradiction by strengthening the progressive essence of the students’ space and by restoring BSO in its organic state: as the independent nursery of progressive politics in Baloch society.  

_____________________

Note: This article is written as a conclusion of a debate by Balochistan Marxist Review team on revival of progressive politics in Balochistan.