Tag Archives: Baloch Women

بلوچ عورت پر جبر کے خلاف امتیازی رد عمل

بلوچستان میں جبر کے صورتحال کی موجودگی عوامی شعور کا حصہ بن چکی ہے ایسے میں عالمی یوم خواتین پر جہاں دنیا بھر میں عورتوں کو درپیش مخصوص صنفی امتیاز کے خلاف ترقی پسند قوتیں بر سر احتجاج ہیں وہیں بلوچستان میں عورتوں کو در پیش پدرشاہانہ صنفی جبر کے خلاف صنفی شعور بیدار ہونا اور اس کے خاتمے کیلئے عورتوں کا صدائے احتجاج بلند کرنا ایک فطری بات ہے۔ البتہ قومی، معاشی، سیاسی و سماجی جبر کی مختلف صورتوں کی بیک وقت شدت کے ساتھ موجودگی میں جبر کی کسی ایک صورت کے پیچھے باقی صورتوں کو رد کرنا نہ صرف عین ممکن ہے بلکہ مختلف سیاسی طبقہ ہائے فکر اس بات پر قائل بھی ہیں کہ سیاسی پیچیدگیوں سے بچنے کیلئے جبر کی ایسی صورتوں کو نظر انداز کیا جا سکتا ہے جو براہ راست سیاسی مفادات کے حصول میں کارآمد نہیں ہیں یا جنہیں وہ ثانوی نوعیت کے جبر کا درجہ دیتے ہیں۔

لیکن جبر تو بالآخر جبر ہی ہے چاہے اس کی صورت کچھ بھی ہو۔ ظاہر ہے جو جس قسم کے جبر کا براہ راست شکار ہوتا ہے یا ہوتی ہے اس کیلئے یقینآ وہی اولیت رکھتی ہے، جبکہ جبر کی باقی تمام صورتیں اس کے لیے شاید ثانوی ہوں۔ یہ تصور فرد کی حد تک تو قابل فہم بھی ہے اور قدرتی بھی خاص طور اس حالت میں جب ایک شخص جو خود پر ہونے والے جسمانی، ذہنی یا سماجی و سیاسی جبر کا شاید وسیع تناظر میں تجزیہ کرنےکی کسی نہ کسی وجہ سے صلاحیت نہ رکھتا ہو۔ لیکن، اگر یہی عمومی نکتہ نظر کسی سیاسی گروہ کے بیانیہ کا حصہ بن جائے تو وہ تشویش ناک بن جاتا ہے۔ بلوچ عورت پر ہونے والا صنفی جبر جس کا سامنا انہیں صرف اور صرف عورت ہونے کے وجہ سے ہوتا ہے جبر کی ان صورتوں میں سے ایک ہے جسے قومی جبر کی اولیت پر یقین رکھنے والے سیاسی حلقے ثانوی نوعیت کا جبر قرار دیکر ایک سنگین سماجی سوال پر اپنے موقف میں ابہام کو جواز فرائم کر تے ہیں۔

جیسا کہ مارکس اور اینگلز اپنے تحریر جرمن آئیڈیالوجی میں کہتے ہیں کہ سماج میں سیاسی ڈھانچے اور سیاسی خیالات مخصوص مادی حالات کی پیداوار ہوتے ہیں۔اگر ہم اس پچھلی بات سے اتفاق رکھتے ہیں تو اگلا سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آخر وہ کون سے حالات ہیں جن سے ایسی قوتیں جنم لے رہی ہیں جو کسی ایک قتل ہونے والے کے لواحقین کو کہتے ہیں کہ آپ کے بین کی آواز اونچی نہ ہو، کیوں کے تم جس جبر کا شکار ہوئے ہو اس کی نوعیت ثانوی ہے، جبکہ تمھارے پڑوسی کا قتل ایک زیادہ اہم اور فوری نوعیت کے جبر کے سبب ہوئی ہے۔ کسی مخصوص جبر کے خلاف امتیازی رد عمل جہاں مختلف سیاسی طبقہ ہاے فکر کے درمیان غیر ضروری مقابلہ بازی کو خوراک فراہم کرتا ہے، وہیں یہ سماج میں ہونے والے جبر کی کثیر الجہتی کردار کو نظر انداز کر دینے والے رویوں کا سبب بنتا ہے جس سے ایک طرف جبر کو اس کی کلیت میں دیکھنا اور سمجھنا مشکل ہو جاتا ہے، تو دوسری طرف وہ مختلف النوع محکوموں کے آپسی اتحاد کو مشکل بنا دیتی ہیں۔ جس سے وہ گروہوں میں بٹے رہتے ہیں اور نتیجہ خیز صف بندیاں تشکیل دینا مشکل تر ہوتا جاتا ہے۔ نیز، اس۔ ’یکسوئی‘ کا ایک خطرناک پہلو یہ بھی ہےکہ اس طرح کے رجحانات انفرادی سیاسی رویوں اور سیاسی جماعتوں کے طرز عمل میں مطلق العنانیت کو جنم دینے کے بیج بھی اپنے اندر رکھتے ہیں ۔

زمینی حقائق کی اگر بات کی جائے تو بلوچستان میں خودکشیاں عام ہیں اور اپنے زندگیاں لینے والوں کی اکثریت نوجوانوں اور خاص طور پر نوجوان لڑکیوں کی ہے جن کے مرنے کی خبر تو عام ہوتی ہے لیکن موت کن حالات میں ہوئی ہے وہ ایک گھٹن زدہ ماحول میں دب جاتی ہے۔ یہ ایک ایسے ماحول کی بات ہو رہی ہے جہاں کسی انسانی زندگی سے زیادہ کسی خاندان کا سماجی رتبہ اہم ہے۔ اور عام طور پر اس حقیقت کو ’عزت‘ اور ’رواج‘ کا غلاف چڑھایا جاتا ہے۔ چھوٹی عمر میں ہی شادی طے کی جاتی ہیں اور بلوغت کی علامات ظاہر ہونے کی دیر ہوتی ہے کہ لڑکیاں رخصت کر دی جاتی ہیں۔

جہاں شادیاں نہیں ہو پاتی ان گھروں میں ناچاقیوں کے قصے عام ہیں۔ مردوں کی سماجی بیٹھکوں سے دور جہاں عورتوں کی مخصوص بیٹھکیں لگتی ہیں وہاں سماجی کشیدگی سے پیدا ہونے والے ناگوار تجربات کی جو باتیں ہوتی ہیں ان کا مرد آپس میں ذکر کرنا بھی معیوب سمجتے ہیں کیونکہ انہیں لگتا ہے کہ گھریلو ناچاقیوں کی باتیں کسی حقیقی صورتحال کے اظہار کے بجائے عورتوں کی لگائ بجھائ ہیں اور مرد اپنے بیٹھکوں میں عموما بازار کی باتوں اور لڑائی جھگڑوں کے قصوں سے آگے نہیں جاتے اور اگر کبھی عورت کا ذکر کر بھی لیں تو گفتگو ’حسن کی تعریفوں‘ [ اگر وہ گفتگو شایستہ زبان میں ہو رہی ہو!] یا پھر عورت مخالف صنفی تعصبات تک ہی محدود ہوتی ہے۔ کسی لڑکی کی مرضی کے بنا رشتہ یا شادی کو اکثریت اب تک مسئلہ ہی نہیں سمجھتے جبکہ نوجوان لڑکیوں کی اکثریت گھر کے کاموں میں اس قدر الجھی ہوئی ہوتی ہیں کہ ان کیلئے مخصوص دائروں سے باہر سماجی و سیاسی تجربات نہ ممکن ہو جاتی ہیں۔ اس کے علاوہ، چھوٹے شہر جہاں پر آبادیاں تیزی سے بڑھ رہی ہیں ان کے اندر لڑکیوں کے باہر نکل کر کسی سرگرمی کا حصہ بننے کے مواقع نہ ہونے کے برابر ہیں، سچ یہ ہے کہ گھر سے باہر کا ماحول ایک عام نوجوان لڑکی کے لیے ہراساں کر دینے والا ہے۔

ان اسباب کے باوجود اگر کسی لڑکی کو اپنے ارد گرد تنگ دائروں کی موجودگی کا شعور آجائے اور وہ اس گھٹن سے نکلنے کیلئے پڑھنے، ملازمت کرنے یا خود سے مختلف کسی خاندان، نسل اور معاشی حیثیت کے لڑکے سے شادی کی خواہش کر بیٹھیں تو وہاں کا مظلوم مرد بھی اکثر سماجی بندھنوں میں قید ہو کر خود سے، اپنے اولاد سے بیگانہ ہو کر سماجی جبر کی ناگزیریت پر خاموش ہو جاتے ہیں یا پھر اپنی سماجی حیثیت برقرار رکھنے کیلئے اپنے ہی اولاد کے خلاف جارحیت پر اتر آتے ہیں۔ کافی حد تک یہ صورتحال نو آبادیاتی اثرات کی وجہ سے بھی ہے جس کے سبب بلوچستان میں ابھی تک وہ انفراسٹرکچر یا ڈھانچہ قائم نہیں ہو سکا جس سے سماجی رویے ترقی کرتے۔

یہ عین ممکن ہے ہم میں سے بہت سی عورتیں اور مرد سماج کے اس حصے سے تعلق رکھتے ہوں جہاں مخصوص حالات میں ہمارے والدین نے اپنی جوانی میں ہی سماجی جبر کا سامنا کیا ہو اور کسی نہ کسی طریقے سے اس جبر کو پار کر کےخاندان اور آس پاس کے لوگوں کی مخالفت کے باوجود اپنے اولاد کو ایک نسبتاً آزاد ماحول فراہم کرنے میں کامیاب ہوئے ہوں۔ لیکن ابھی تک بلوچستان میں یہ حقیقت انفرادی تجربات سے نکل کر ایک مجموعی سماجی حقیقت نہیں بن پائی ہے جس کے سبب سماجی و معاشی آزادی کا تجربہ عورت کی اکثریت کیلئے ایک سہانے خواب کے سوا کچھ نہیں جس کی حصول کیلئے انہیں اپنے خاندانی رشتے، والدین کی محبت اور یہاں تک کہ زندگیاں بھی قربان کرنا پڑ سکتی ہیں۔ آزادی کی انفرادی احساس کو ہم اجتماعی جبر کی اس صورت کی حقیقت کو رد کرنے کیلئے بطور جواز استعمال نہیں کر سکتے جس سے لوگوں کی زندگیاں وابستہ ہیں جس کی بنیاد پر ان کی مستقبل کا تعین کیا جاتا ہے اور ایسے رشتے بنتے ہیں جنہیں ختم کرنے کی نسبت نوجوان لڑکیاں اپنی زندگیوں کو ختم کرنا زیادہ آسان سمجھتی ہیں۔

سیاسی جبر کا شکار ایک بلوچ مرد لاپتہ ہوتا ہے، تشدد برداشت کرتا ہے اور قتل ہوجاتا ہے یا پھر کسی لاپتہ یا مقتول کے والد یا عزیز کی شکل میں زندگی بھر ازیتیں سہتا ہے۔ ایک جیسے سیاسی جبر کا شکار بلوچ عورت اگرچہ عموما لاپتہ نہیں ہوتا یا ایک جیسے وجوہات کی بنا پر جسمانی تشدد نہیں سہتا اور قتل نہیں ہوتا لیکن ان کے حصے میں جتنی ازیتیں آتی ہیں ان کے گھر کے مردوں کے حصے میں بھی اتنی ہی ازیتیں آتی ہیں ۔سیاسی جبر کے خلاف کھڑے ہونے والے کسی مرد کی نسبت کسی عورت کی جد و جہد کی اہمیت کا جب ہم اقرار کرتے ہیں تو ہم اس حقیقت کو تسلیم کر رہے ہوتے ہیں کہ یہ مخصوص سیاسی کردار رائج الوقت سماجی قوائد سے مطابقت نہیں رکھتا اس وجہ سے وہ اہم ہے۔ سیاسی جبر کی ازیتوں میں برابر کی شریک عورت کی سماجی جبر میں تنہائی وہ حقیقت ہے جو بلوچ عورت کو فطری طور پر مردوں کی بالادستی میں قائم ان روایتوں سے باغی بناتی ہے جو سماج کو مجموری طور پر گھٹن زدہ بناتے ہیں۔

مارکسی ماہر تعلیم پاؤلو فریرے اپنے کتاب تعلیم اور مظلوم عوام میں کہتے ہیں کہ بالادستی کے ڈھانچے میں جہاں انسانوں کے درمیان معاشی، سماجی و سیاسی رشتے انسانوں کی انفرادی آزادی اور برابری کے بجائے ایک فرد کے ہاتھوں دوسرے فرد کے استحصال پر مبنی ہو وہاں استحصال زدہ فرد یا طبقے کا تاریخی فریضہ بن جاتا ہے کہ وہ نہ صرف خود کو اس استحصال کے نظام سے آزاد کرے بلکہ اس استحصال کر برقرار رکھنے والے ڈھانچے کو ختم کر کے وہ استحصال کرنے والے فرد یا طبقے کو بھی اس کے اپنے جبر سے آزادی دلائے۔ اگر ہم اس بات سے اتفاق رکھتے ہیں کہ بلوچ مرد اور عورت سماجی و سیاسی جبر کا یکساں شکار ہیں تو ہم اس حقیقت سے بھی انکار نہیں کر سکتے کہ بلوچ مرد اور عورت کو اس جبر کے خلاف جد و جہد بھی یکساں بنیادوں پر کرنا ہوگا جبکہ عورتوں کو درپیش امتیازی صنفی جبر جس کا بلوچ مرد کو سامنا نہیں ہے اس کا خاتمہ عورتوں کی قیادت میں عورتوں کی ہی جد و جہد سے ممکن ہے ۔ یہ بلوچ عورت پر ایک اضافی جبر ہے جس کی حقیقت کو جھٹلایا نہیں جا سکتا۔

معاشی اور سیاسی جبر کے برعکس سماجی جبر کا سامنا بلوچ عورت کے علاوہ نچلے طبقات کے ان مردوں کو بھی کرنا پڑتا ہے جنہیں سماج پر بالادست مراعات یافتہ طبقے کی جانب سے نسلی طور پر کم تر قرار دیا جاتا ہے۔ لیکن نچلے طبقات کے مردوں کے برعکس جن کیلئے سماجی حیثیت سے محرومی ایک طبقاتی مسئلہ ہے عورت کیلئے سماجی جبر ایک طبقاتی مسئلہ ہونے کے ساتھ صنفی مسئلہ بھی ہے جہاں معاشی حیثیت کے علاوہ خاص طور پر عورت ہونے کی وجہ سے ان کیلئے سماجی دائرہ محدود ہوجاتا ہے۔ نچلے طبقات کے برعکس بلوچ مردوں کی اکثریت معاشی اور سیاسی جبر کے باوجود صنفی جبر سے نہ صرف آزاد ہے بلکہ اپنے روز مرہ میں پدرشاہانہ رویوں کی شکل میں اس جبر کو برقرار رکھے ہوئے ہیں۔

بلوچ عورتوں میں صنفی شعور اور تنظیم کاری جبر کی مختلف شکلوں کے خاتمے کی نوید ہے جبکہ صنفی امتیاز کے خاتمے کی جد وجہد سے انکار در حقیقت عورت کے مجموعی سیاسی کردار سے انکار ہے جو صنفی جبر کے ساتھ ساتھ جبر کی دوسری تمام شکلوں کے خلاف جد و جہد میں بھی عورت کے کردار کو محدود کر دیتی ہے۔ ایسے سماجی ڈھانچے جو صنفی، نسلی اور معاشی بنیادوں پر استحصال کے شکار عوام کی سیاسی قوت کے اظہار کو ناممکن بناتے ہیں ان کے خاتمے کے بغیر ایک بہتر سماج کا تصور نا ممکن ہے۔ بلوچ عورت کو درپیش یکساں معاشی و سیاسی جبر کے علاوہ صنفی بنیادوں پر سماجی جبر سے انکار اشرافیہ اور متوسط طبقے کے اس حصے کیلئے ہی قابل قبول ہوسکتا ہے جن کی سیاسی بقا عوامی قوت کے استحصال پر مبنی ہو نہ کہ ان ترقی پسند سیاسی طبقات کیلئے جو آزادی کے اس مفہوم پر یقین رکھتے ہیں جس کی بنیاد سماج کے پسے ہوئے طبقات کی انفرادی معاشی، سیاسی و سماجی برابری پرہو۔

کریمہ : انقلاب کی ایک داستان

گزشتہ دو دہائیوں میں بلوچستان جن تاریخی تبدیلیوں سے گزرا ہے ان میں عورت کے روایتی کردار کی تبدیلی اہم ترین تبدیلیوں میں سے ایک ہے۔ بلوچ عورت جس کی بہادری کے قصے اکثر اساطیری کہانیوں کے حوالوں سے مردوں کی زبانی بیان ہوتی تھی پہلی مرتبہ سیاسی منظر نامہ پر انقلاب کے نعرے کے ساتھ نمودار ہوئی۔ بانک کریمہ ان نمایاں خواتین میں سے ایک تھیں جنہوں نے بلوچ سماج میں مرد اور عورت کے صنفی تفریق پر مبنی روایتی مقام کو چیلنج کرتے ہوئے سیاسی عمل کا مردوں کیلئے مخصوص ہونے کے تصور کو نہ صرف رد کیا بلکہ سیاست میں عورتوں کے قائدانہ کردار کی بنیاد ڈالی ۔ اپنے ہم عصر دیگر خواتین جہد کاروں کی نسبت کریمہ ایک قدم آگے گئیں ، انہوں نے بلوچستان کے کونے کونے میں عورتوں کے ساتھ روابط قائم کر کے ان میں سیاسی بیداری کا تاریخی فریضہ سر انجام دیا اور خود اس بیداری کا اور بلوچ خواتین کے اس نئے کردار کا کلیدی چہرہ بن گئیں۔ ۲۲ دسمبر کو کینیڈا کے شہر ٹورنٹو میں ان کی گمشدگی اور پراسرار حالات میں شہادت کے بعد بلوچستان بھر میں عوامی غم و غصہ اور خاص طور پر بلوچ خواتین کا ان کے ساتھ جزباتی و سیاسی وابستگی اس بیداری کا پہلا عوامی اظہار تھا۔ لوگوں کی ایک بڑی تعداد کا سیاسی جبر کے ماحول کے باوجود کریمہ کیلئے احتجاجی مظاہروں کی شکل میں باہر نکلنا اس حقیقت کا غماز ہے۔

بلوچستان میں جدید قومیت کی بنیاد پر سیاست کا آغاز ایک صدی قبل پدر شاہانہ قبائلی ماحول میں مردوں کی قیادت میں ہوا۔ سیاسی اور سماجی معاملات مردوں کا دائرہ کار ہوا کرتی تھیں اور خانہ داری عورتوں کیلئے مخصوص ہوا کرتی تھی۔ سامراجی سرپرستی میں بننے والا قبائلی جرگہ سب سے اہم سیاسی ادارہ بن چکا تھا جہاں عورتوں کی کوئی نمائندگی نہ تھی اسی طرح جو سیاسی ادارے سامراجی بالادستی کی مخالفت میں مزاحمت کی عملبردار بن کر ابھرے انہوں نے بھی قبائلی عورت کی حالت زار تبدیل کرنے کیلئے کوئی ترقی پسند لائحہ عمل اپنانے کے بجائے انہی پدر شاہانہ سماجی روایات کے ساتھ ہی مزاحمتی سیاست کی بنیاد رکھی۔ اس طرح جدید بلوچ قومی سیاست اپنے ابتدا ہی سے مردوں کیلئے مخصوص سرگرمی رہی ہے ۔ اگرچہ بلوچ تاریخ میں ایسی عورتوں کے انفرادی کرداروں کو رد نہیں کیا جاسکتا جنہوں نے علاقائی سطح پر یا اپنے مخصوص قبائل میں مردوں کی نسبت سیاسی اور سماجی طور پر نمایاں کردار نبھایا لیکن عوامی سطح پر سیاست اور سماجی معاملات مجموعی طور پر ہمیشہ سے مردوں کیلئے مخصوص رہے ہیں۔ خواتین کا کردار اگرچہ کچھ تاریخی واقعات میں اہم، مگر ثانوی ہی بتایا جاتا ہے۔ اول، تو ان کا ذکر ہمیں ما سوائے لوک داستانوں میں نمایاں اور تفصیلی طور پر نہیں ملتا اگر کہیں ان کی بات کی بھی گئی ہے تو فقط حاشیوں میں۔

گزشتہ نصف صدی کے دوران خاص طور پر بلوچ سماج میں ہونے والے تیز رفتار تبدیلیوں کی وجہ سے مرد اور عورت سے منسوب روایتی صنفی کردار تبدیل ہوچکے ہیں۔ یہ تبدیلی خاص طور پر مکران میں واضح طور پر نظر آتی ہے جہاں قبائلی سماجی ڈھانچہ تقریباََ ختم ہوچکا ہے اور اس کی جگہ مشترکہ خاندانی نظام نے لے لی ہے۔ بلکہ اب تو مشترکہ خاندانی نظام بھی بحران کا شکار نظر آتا ہے۔ بہرحال، قبائلی نظام کی نسبت خاندانی نظام میں سماجی اقدار کو انفرادی سطح پر نافظ کرنے کا نظام کمزور ہوتا ہے، جس کی وجہ سے اندرونی معاشی یا سماجی دباؤ کی صورت میں یا کسی بیرونی دباؤ کی وجہ سے مروجہ اقدار سے انحراف ممکن ہو پا تا ہے ۔ بیسیوں صدی کے نصف کے بعد مکران کے معاشی ڈھانچے میں ہونے والی تیز رفتار تبدیلیوں نے اس انحراف کیلئے راہیں ہموار کیں۔ جبکہ عورتوں کیلئے سرکاری ملازمتوں کی شکل میں غیر زرعی معاشی مواقع اور اس کے ساتھ ساتھ تعلیم تک رسائی نے اس انحراف کو ایک معاشی و سماجی ضرورت میں تبدیل کر دیا ۔ بلوچستان کے دیگر حصوں میں بھی ملتے جلتے اثرات کے تحت روایتی قبائلی نظام کمزور ہوا ہے ۔ معاشی و سماجی طور پر زیر دست طبقوں کیلئے سابقہ سماجی نظام سے انحراف سرکاری ملازمتوں اور قریبی شہروں یا بیرونی ممالک میں ہجرت کی شکل میں ممکن ہو پایا جس کہ وجہ سے جہاں عام لوگوں کیلئے طبقاتی حالت سدھارنے کے مواقع پیدا ہوئے وہیں عورتوں کیلئے سابقہ قبائلی نظام کے روایات سے آزادی بھی ممکن ہوئی۔

کسی بھی ماحول میں جہاں ایک طرف بدلاو اور حرکت کے ڈھانچے اور ان سے جڑے عوامل موجود ہوتے ہیں، وہیں پرانے اور متروک شدہ ڈھانچوں کی باقیات بھی موجود ہوتے ہیں جن کی زوال پزیری کے سبب سماجی ترقی کے عمل میں پیدا ہونے والا ٹھراو، بلکہ سماجی سڑاند، بیماری کی حد تک معاشرے کو متاثر کرتا ہے۔ سماجی تبدیلی، نئے اور پرانے ڈھانچوں کے درمیان جدل کی داستان طویل اور وقت طلب ہے اگر صدیوں کی بات نہ بھی ہو تو کم از کم دہائیاں اس میں کھپ جاتی ہیں۔ نوآبادیاتی جبر اس پسماندگی کی صورتحال میں نہ صرف ایک اضافہ ہے بلکہ اس کی وجہ سے سماج کی فطری ارتقا کی شکل تبدیل ہو جاتی ہے اور سماجی تبدیلی کا عمل اندرونی طور پر پیچیدگی کا شکار ہوجاتا ہے۔ سیاسی جبر و تشدد اور طاقت کا بلا دریغ استعمال نو آبادیاتی صورتحال کی بنیاد ہیں جس سے نہ صرف زیر دست سماج اندرونی طور پر گھٹن کا شکار ہوجاتا ہے بلکہ محکوموں کی نمائندگی کرنے والے سیاسی و سماجی گروہوں میں بھی رجعتی رویوں کے فروغ کا سبب بنتا ہے۔

ہم دیکھتے ہیں کہ روایتی قوم پرست سیاسی اداروں جن میں پارلیمانی پارٹیاں سرفہرست ہیں ان کی سیاسی ساخت ، تصورات اور پالیسیوں نے عمومی طور پر سماج میں روایت پرستی کو فروغ دیا جس کا اظہار ہمیں ان کی سیاست میں قبائلیت اور اس سے جڑے عورتوں کے روایتی کردار کے دفاع و فروغ کی صورت میں نظر آتا ہے۔ اگرچہ کہیں کہیں معاشی و سماجی حالات کے دباؤ کے تحت عورتوں کے حقوق ان پارٹیوں کے ایجنڈے میں شامل ہو جاتے ہیں یا پھر لبرل جمہوریت سے بظاہر متاثر، لیکن اس کی روح سے عاری، ریاستی آئین کے تقاضوں کو پورا کرنے کیلئے چند عورتوں کو برائے نام نمائندگی دی جاتی ہے لیکن اس کے ساتھ ہی اس بات کا مکمل خیال رکھا جاتا ہے کہ ان کی سیاست عورت کے روایتی کردار میں کسی قابل ذکر تبدیلی کا سبب نہ بنے۔ ان کی یہاں عورتوں کی آزادی اور خود مختاری کا انقلابی عمل برائے نام یا ٹوکن ازم تک ہی محدود رہتا ہے اور مجموعی طور پر، کوشش یہی رہتی ہے کہ سماجی طور پر عورتوں کی زیردست حیثیت کو سیاست میں بھی انہی بنیادوں پر برقرار رکھا جاسکے تا کہ سماج میں موجود بالادستی کا نظام جس سے وہ برائے راست مستفید ہو رہے ہیں، اسی حالت میں برقرار رہے ۔ کریمہ جیسے انقلابی کرداروں کے ابھرنے کیلئے روایتی پارلیمانی قوم پرستی کے مقابلے میں ایسی سیاسی قوتوں کو ابھرنا لازم تھا جو سماج میں مروج بالادستی کے نظام کا خاتمہ چاہتی ہوں اور زوال پزیر قبائلی اقدار کا دفاع کرنے، یا اس حوالے سے شد و مد میں مبتلا ہونے کے بجائے نسبتا ترقی پسند قومی۔جمہوری اقدار وسیاست کی ترویج کریں ۔

بلوچ مزاحمتی سیاست کے حالیہ ابھار کے عروج پر بی ایس او نے جہاں دوسرے کئی روایتی سیاسی و سماجی تصورات کو مسترد کیا وہیں کریمہ کے ہاتھوں تنظیمی قیادت سونپ کر عورتوں کے سیاسی کردار کو تبدیل کرنے کیلئے وہ تاریخی کردار ادا کیا جو روایتی قوم پرست سیاست کبھی نہیں کر سکتی تھی۔ کریمہ کی قیادت اگرچہ بلوچ قومی سیاست کی پدرشاہانہ ساخت کو مکمل طور پر تبدیل نہیں کرپائی، لیکن عورت کے سیاسی کردار کو انقلابی بنیادوں پر تبدیل کرنے کا سبب بنی جس سے بلوچ عورتوں کیلئے سیاسی عمل میں شمولیت کیلئے نہ صرف راہیں کھلی بلکہ عورت کی قیادت کی ایک مثبت مثال بھی قائم ہوئی۔ اس قسم کی جدت پسندی جس کا مظاہرہ ہمیں مزاحمتی سیاست کے ابتدائی دنوں میں واضح نظر آتا ہےعوامی تحریکوں کے لیئے خود بھی اہم ہوتی ہے ۔ روایتی مفاد پرست سیاست کے برعکس جس کا انحصار حکمران طبقوں کی خوشنودی پر ہوتا ہے مزاحمت سیاست کی روح عوام میں بسی ہوتی ہے ۔ عوامی حمایت کی ضرورت کے پیش نظر ان کیلئے رائے عامہ کے دباؤ کو نظر انداز کرنا زیادہ دیر تک ممکن نہیں ہوتا جس کے سبب ان میں عمومی رجحان نسبتاََ جمہوری اور ترقی پسند ہوتا ہے۔استعماری رویے کے عین متضاد!۔

استعمار اور عوام کی کشمکش، محض جنگ کے میدان میں نہیں ہورہی ہوتی، بلکہ ثقافتی میدان اس لڑائی کا ایک اہم تھیٹر ہوتا ہے۔ قابض چاہتا ہے کہ وہ ایسی اخلاقیات کو فروغ دے جس میں سماجی کنٹرول، جو کہ بنیادی طور پر اس کے غلبے کا ضامن ہے، کو کوئی خطرہ نہ ہو۔ بطور ایک نوجوان لڑکی کے، کریمہ نے اپنی سیاست و شخصیت سے اگر ایک طرف بلوچ سماج کی فرسودہ روایات سے بغاوت کی تو یہ اس سے بڑھ کر استعماری روایات کی بت شکنی بھی تھی۔ جہاں سیاست کو طاقت کے غرور یا اس کی چاہ میں اندھے مردوں کا کام سمجھا جاتا ہے نہ کہ جوان لڑکیوں کا۔ کریمہ نے اپنے مکمل وجود سے ان لغو سامراجی تصورات کو یکے بعد دیگرے پاش پاش کیا اور اپنی سیاست سے غالب ثقافتی معیاروں پر سوال اٹھائے اور نہ صرف ایک متبادل دیا، بلکہ اس پر چل کر بھی دیکھایا۔ یقیناََ یہ ایک انتہائی مشکل سفر تھا، لیکن اس عمل میں کریمہ نے بےشمار ساتھی، ہمراہ، اور ہمدرد پیدا کیئے اور مختصر عرصے میں نوجوان خواتین کی ایک تحریک کھڑی کر دی۔ بلاشبہ انہوں نے تاریخ کی روانی کو نہ مساعد حالات کے باوجود ایک جاندار دھکا دیا اور تاریخ میں عورت کے انقلابی کردار کی ایک مثال پیش کی ۔ جس طرح تاریخ کی پیش رفت کے بارے میں مارکس اور اینگلز اپنے تحریر “مقدس خاندان” میں لکھتے ہیں ” تاریخ انسان کی اپنے مقاصد کے حصول کے جد وجہد کے سوا کچھ نہیں” اسی طرح کریمہ نے اپنے انقلابی کردار سے نئی تاریخ رقم کردی ۔

بلوچ خواتین کی سیاسی و سماجی آزادی کا سفر بے شک طویل ہے، جس کا آغاز سیاسی محاذ پر اگرچہ بانک کریمہ جیسے انقلابی کردار ایک دہائی قبل کر چکے ہیں لیکن سماجی سطح پر آج بھی بلوچ خواتین دوہرے جبر کا شکار ہیں ۔ اس دوہرے جبر کی ایک شکل ریاستی سطح پر قومی اور انسانی حقوق کی پامالی کی صورت میں جبکہ اندرونی طور پر بلوچ سماج کی عورت مخالف روایات اور عورتوں کیلئے یکساں مواقع کی عدم موجودگی کی شکل میں ہمیں نظر آتا ہے۔ کریمہ کی سیاسی جد و جہد اگرچہ اس دوہرے جبر کو ختم نہ کر سکی البتہ انہوں نے اپنے تاریخی کردار کے زریعے بلوچ عورت کیلئے جد و جہد کا رستہ متعین کر دیا۔ کریمہ اپنی زندگی میں ہی سینکڑوں خواتین کو صنفی اور قومی و انسانی حقوق کی جد وجہد کا حصہ بنانے میں کامیاب ہوچکی تھی۔ ان کی ناگہانی شہادت نے ان کی زندگی اور جد وجہد کو بلوچ عوام بلعموم اور خواتین کیلئے بلخصوص ایک ناقابل فراموش باب میں تبدیل کر دیا جو کہ آنے والی نسلوں کیلئے رہنمائی کا سبب بنےگا۔

شاہینہ شاہین کا قتل اور بلوچ عورت کا کرب

The Five Shaheen Sisters: Art by Shaheena Shaheen displayed in the University of Balochistan, Quetta on April 25, 2019.

Click here to read the article in English

شاہینہ شاہین کا قتل بلوچ سماج میں عورتوں کی گھمبیر صورتحال کو ایک مرتبہ پھر منظر عام پر لے آیا ہے۔ بلوچ خواتین خاص طور پر وہ جو پدرشاہی کی سرخ لکیر کو پار کرنے کی ہمت کرتی ہیں وہ اس پر خطر صورتحال میں سب سے زیادہ متاثرہیں۔

بلوچ سماج میں پدرشاہی اپنی تمام تر جاوجلال کے ساتھ وجود رکھتی ہے جہاں سماجی، سیاسی اور فکری زندگی میں مردوں کی بالادستی عورت کی شمولیت کو صرف اس تک ہی برداشت کرتی ہیں جہاں یا تو عورت کا کردار مردوں کی متعین کردہ حدود کے اندر بند ہو تا کہ وہ زندہ تو رہے لیکن اپنی زندگی پر مرد کی اجارہ داری کے خلاف کبھی نہ اٹھ سکے۔

جوں ہی اک بہادر عورت مرد کی متعین کردہ تنگ دائروں سے آزاد ہونے کے عزم کا اظہار کرتی ہے اسے نہ صرف ڈرا دھمکا کر خاموش کرایا جاتا ہے بلکہ تشدد کا نشانہ بنا کر دن دھاڑے قتل کردیا جاتا ہے اور قاتل آزاد گھومتے رہتے ہیں جیسے کچھ ہوا ہی نہ ہو۔ 

ستمبر کی 5 تاریخ کو 25 سالہ شاہینہ کو تربت میں مبینہ طور پر ان کے شوہر مہراب گچکی نے قتل کیا اور لاش مقامی ہسپتال کے باہر چھوڑ کر فرار ہو گیا۔ مہراب کے ساتھ شاہینہ کی شادی چند مہینے قبل ہوئی تھی۔ باخبر ذرائع کے مطابق شوہر نے قتل کے بعد بلا خوف و خطر شاہینہ کی ماں کو فون کیا اور انہیں ہسپتال سے اپنی بیٹی کی لاش اٹھانے کا کہا۔

مکران کے سماجی و سیاسی حالات میں مہراب گچکی کی اپنے انجام سے بے فکری قابل فہم ہے۔ سابق والی مکران گچکی خاندان کا فرد ہونے کہ وجہ سے مہراب کو ایک عو رت کے قتل پر نا قانون کا سامنا ہے اور نہ ہی کسی مقامی جرگے کا جس کا ڈر اسے کسی ایسے مزموم حرکت سے باز رکھتا۔ اگرچہ مکران سے قبائلی اثر رسوخ ختم ہوئے نصف صدی سے زائد گزر چکا ہے لیکن صدیوں پر محیط ظلم و جبر کی بنیاد پر قائم سماجی برتری اب بھی نہ صرف وجود رکھتی ہے بلکہ کھل کر اپنے وجود کا احساس بھی دلا رہا ہے۔

سابقہ قبائلی حیثیتیں نئے دور کے معاشی قوتوں بین الاقوامی منشیات کے کاروبار، مذہبی شدت پسندی اور تیل کے بیوپار سے وابستہ چند منظم گروہوں کے ساتھ مل کر مکران میں جرم کی نئی سلطنت چلا رہے ہیں۔ حالیہ دنوں میں رونما ہونے والے واقعات میں ان گروہوں کے کردار اور ان کو ملنے والی کھلی چھوٹ سے ان کی مقتدر اداروں سے وابستگی کا اندازہ لگانا مشکل نہیں۔

شاہینہ کے قتل سے بلوچ سماج میں پہلے سے موجود بے چینی میں اضافہ ہوا ہے جو کہ عورتوں پر ہونے والے حملوں کی حالیہ سلسلے کی وجہ سے پیدا ہوا ہے ۔ سیاسی حلقوں کی جانب سے شاہینہ کے قتل کو بلوچ عورتوں پر ہونے والے حملوں کے تسلسل کا حصہ قرار دیا جا رہا ہے۔

عمومی تاثر یہ ہے کہ دہائیوں پر محیط کشیدگی پورے سماج کو متاثر کر چکا ہے جہاں مردوں کے ساتھ ساتھ اب خواتین بھی برائے راست نشانہ بن رہی ہیں البتہ سیاسی جبر کے علاوہ بلوچ سماج کے اندر جبر کی مختلف اندرونی شکلیں بھی وجود رکھتی ہیں جنہوں نظر انداز کیا جاتا ہے۔ بلوچ سماج کا اندرونی جبر سیاسی کشیدگی کے زیر اثر ایک اندوہناک شکل اختیار کر چکا ہے جسے مزید نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔پدرشاہی کا جبر انہی اندرونی جبر کی مختلف شکلوں میں سے ایک ہے جو سماج پر مرد کی بالادستی،عورت مخالف رویہ اور صنفی امتیاز کی عمومی اظہار کے ساتھ ساتھ عورتوں پر تشدد کی مختلف شکلوں میں منظر عام پر آرہا ہے۔ 

ہم یہ سمجھتے ہیں کہ شاہینہ بلوچ سماج کی پدرشاہانہ ساخت میں موجود اندرونی جبر کا نشانہ بنی۔شاہینہ کو جوانی میں تشدد اور موت کا سامنہ کرنا پڑا کیونکہ وہ ایک عورت تھی جسے ہر حال میں اپنے شوہر کے خواہش کے مطابق زندگی گزارنی تھی چائے وہ خواہشات کتنی ہی مذموم کیوں نہ ہوں۔ اسے خود پر لگائی گئی بےجا پابندیاں قبول کرنی پڑیں، اپنی سماجی زندگی سے قطع تعلق کرنا پڑا، اپنے فن سے دستبردار ہونا پڑا، اور سب سے بڑھ کر اسے خاموش ہونا پڑا اس شاہینہ کو جسے دوسرے بے آواز عورتوں کی آوازبننا تھا۔ بلوچ سماج میں کسی بھی مرد کو اپنے صنف کی وجہ سے کبھی بھی ایسی پابندیوں کا سامنا نہیں کرنا پڑتا  جن کی خلاف ورزی کی سزا موت ہو۔ بلا شبہ بلوچ مرد کو شدید سیاسی جبر کا سامنہ ہے جہاں وہ روزانہ کی بنیاد پر لاپتہ ہوتے ہیں، تشدد جھیلتے قتل کر دیئے جاتے ہیں لیکن بلوچ عورت کیلئے سیاسی جبر کے علاوہ صرف اس کا صنف قتل کا پروانہ ثابت ہو رہا ہے خاص طور پر ان خواتیں کیلئے جو مردوں کی تعین کردہ حدود سے آزاد زندگی گزارنا چاہتی ہیں۔ 

یہ کہانی صرف شاہینہ کی نہیں بلکہ بلوچستان کے ہر اس عورت کی کہانی ہے جو بدلتے معاشی و سماجی حالات میں تنگ دائروں سے نکل کر اس سماج زندگی کا حصہ بننا چاہتی ہے جس پر مردوں کا غلبہ ہے ان میں سے کچھ مرد گروہوں کی شکل میں نہ صرف منظم ہیں بلکہ مسلح بھی ہیں اور عورت پر اپنی مردانہ بالادستی قائم کرنے کیلئے معصوم زندگیوں سے کھیلنے سے بھی گریز نہیں کرتے۔

شاہینہ شاہین کون تھی؟

شاہینہ بی بی ماہ رنگ کی پانچ بیٹیوں میں سے سب سے بڑی تھی۔ شاہینہ کی ماں ماہ رنگ اپنے آپ میں پدرسری معاشرے کے خلاف جد و جہد کی ایک مثال ہیں۔ بیٹا نہ ہونے کی باعث پانچویں بیٹی کی پیدائش پرباپ نے جوان ماں کو بیٹیوں کے ساتھ بے آسرا چھوڑ کران سے قطہ تعلق کر لیا۔ بی بی ماہرنگ نے پدر شاہی کے سامنے ہار نہیں مانی اور اپنی بیٹیوں کو کسی مرد کے سہارے کے بغیر اپنے پاؤں پر کھڑا کیا۔انہیں تربت میں پہلی خاتون ہونے کا اعزاز حاصل ہے جس نےاپنے بیٹیوں کو پالنے کیلئے خود گاڑی چلائی۔ آج بھی تربت شہر میں عورت کے گاڑی چلانے کو معیوب تصور کیا جاتا ہے اور بہت سے ایسے خواتین جو ملازمت کرتی ہیں اپنے خاندان کے مردوں کی دباؤ کی وجہ سے خود گاڑی نہیں چلا سکتے۔
 
شاہینہ کی پرورش ایک مضبوط عورت کی زیر سایہ ایک ایسے گھر میں ہوئی جہاں پدرشاہی کے قوائد و ضوابط نافظ کرنے والا بالادست مرد کوئی نہیں تھا۔ ان کی ماں نے مردوں کے سماج سے لڑتے ہوئے اپنی بیٹیوں کیلئے نئے مواقع پیدا کیئے جو کہ بلوچ سماج میں اکثر خواتین کے دست رس سے باہر ہوتی ہیں۔ شاہینہ یہیں سے اپنے جہدوجہد کا آغاذ اس مقصد کے ساتھ کرتی ہیں کہ جو مواقع اسے حاصل ہوئیں وہ بلوچستان کی تمام عورت کی حاصل ہوں۔ ماہ رنگ کی جدوجہد نئی نسل میں منتقل ہو چکی تھی جس نے اسے پورے سماج میں پھیلانے کا بیڑا اٹھایا۔

شاہینہ نے آغاز ‘دزگہار’ سے کیا جسے بلوچی زبان میں عورتوں کی پہلی میگزین ہونے کا اعزاز حاصل ہے۔ دزگہار کی پہلی جلد 2014 میں شایع ہوئی جس کا مقصد خاتون لکھاریوں کو عورتوں کیلئے مخصوص پلیٹ فارم مہیا کرنا تھا۔دزگہار پہلی اشاعت کے بعد وقتی طور پر رک گیا لیکن شاہینہ کہیں نہیں رکیں۔ اپنے اگلے محاذ پر انہوں نے پی ٹی وی بولان کے اسٹیج کے توسط سے انٹرٹینمنٹ انڈسٹری میں قدم رکھا۔ شاہینہ کاکردار بطور میگزین ایڈیٹر خاص توجہ کا سبب نہیں بنا لیکن انٹرٹینمنٹ انڈسٹری ایک عوامی مقام تھا جس کے اکثریتی ناظرین مردوں پر مشتمل تھی جو کہ اپنے ٹی وی اسکرین پر مردوں کی صنفی برتری اور سماج میں رائج مرد اور عورت کے مخصوص کردار کو تبدیل ہوتے ہوئے ناگواری کے ساتھ دیکھ رہے تھے۔
   
اکیسیوں صدی کے ظہور کے ساتھ رونما ہونے والی تبدیلیوں کے آثار اگرچہ بلوچستان میں دیر سے پہنچے لیکن وہ پہنچے ضرور۔ٹیکنالوجی کی سرمادارانہ ترقی اور معاشی ڈھانچوں کی مونیٹایزیشن کے زیر اثر زوال پزیر سماجی ساخت میں نئے اور ترقی پسند پرتیں سامنے آنا شروع ہوئیں۔ نئے مادی حالات رائج الوقت پسماندہ اقدار کے ساتھ ہم آہنگ نہ ہونے کی وجہ سے تبدیلی کا سبب بنیں جس کے بطن سے سماجی وجود کے اظہار کی نئی شکلیں سامنے آئیں۔ 

شاہینہ سماجی تبدیلی کا چہرہ تھیں۔ انہوں نے اپنا زریعہ میڈیا کو بنایا جس کے توسط سے بلوچستان کے متوسط طبقے کے ہر گھر تک ان کی آواز اور ان کا پیغام پہنچا۔ شاہینہ اور ٹی وی اسکرین پر آنے والی ان جیسی بہت سی دیگر بلوچ خواتیں اگرچہ اکثر مرد ناظریں کیلئے انٹرٹینمنٹ کے علاوہ کچھ نہیں تھی لیکن مردوں کی دنیاں میں قید خواتین ناظرین کیلئے وہ ایک نئی دنیا کے ترجمان تھی ۔انہوں نے بلوچ خواتین کو اپنے خود ساختہ محافظ مردوں کی دنیا سے پرے دیکھنے کی ترغیب دی۔

انٹرٹینمنٹ انڈسٹری نے شاہینہ کو مشہوری کی ساتھ ساتھ معاشی طور پر مستحکم بنایا جس سے وہ اس قابل ہوئی کہ سماج پر مردوں کی بالادستی اور اس کی نتیجے میں بننے والے ثقافتی اور مذہبی اقدار کو للکار سکے۔ شاہینہ نے آرٹ کے زریعے بلوچ عورت کے کرب کو کینوس پر اتارا جو کہ ہر بلوچ عورت کی طرح اس کی اپنی ذاتی زندگی کا کرب بھی تھا۔شاہینہ نے اپنی فنی علم کو وسیع کرنے کیلئے بلوچستان یونیورسٹی میں فنون لطیفہ کے شعبے میں داخلہ لیا جہاں سے 2015 میں انہیں ان کی قابلیت کے اعتراف میں گولڈ مڈل سے نوازا گیا۔ شاہینہ کا ماننا تھا کہ بلوچ خواتین کو مناسب مواقع فراہم ہوں تو وہ پدرشاہی نظام کے زنجیروں سے آزاد ہو کر ایک نئی دنیا تخلیق کرسکتی ہیں۔

مردوں کی بالادستی پر قائم اسٹیٹس کو کے خلاف جانے کی قیمت شاہینہ کو اپنی زندگی میں پل پل چکانا پڑی۔ انہیں نوجوانی میں اپنی کزن کے ساتھ ایک بے جوڈ شادی پر راضی ہونا پڑا کیونکہ مردانہ سماج ایک غیر شادہ شدہ عورت کو کسی صورت برداشت نہیں کر سکتی تھی جو ان عورتوں کیلئے ایک مثال بننے جارہی تھی جن عورتوں کو مردوں نے اپنے سوچ کے تنگ دائروں میں قید رکہا ہوا ہے۔ شاہینہ نے بھی سوچا ہوگا کہ شاید شادی کے بعد ان پر انگلیاں اٹھنا بند ہو جائینگی لیکن ایسا نہ ہو سکا۔ ان کی اس سمجھوتے کا نتیجہ ذاتی زندگی میں پیچیدگیوں اور بلاخر طلاق پر ختم ہوا۔ پہلے شوہر سے علیحدگی مختصر مدت کیلئے ہی سہی سکھ کا سبب بنی اور شاہینہ بھرپور انداز میں اپنے تخلیقی سرگرمیوں کی طرف لوٹ گئی۔ اسی دوران شاہینہ نے اپنے جوان خواب کی تعبیر میں دزگہار میگزین کی اشاعت دوبارہ شروع کی اور اپنے آرٹ کے زریعے ایک نئی پہچان بنانے لگی جو کہ ان کی بطور ٹی وی میزبان شناخت سے یکسر مختلف تھی۔ اپنی نئی زندگی میں شاہینہ کی ملاقات ان کے  ہونے والے شوہر اور مبینہ قاتل نوابزادہ مہراب گچکی سے ہوئی۔ 

شاہینہ پسماندہ سماج کے اونچ نیچ پر مبنی حد بندیوں اور تقسیم پر یقین نہیں رکھتی تھی۔وہ ایک ایسے راستے پر گامزن تھیں جو نہ صرف معاشی اور سماجی سرحدوں کے آر پار جاتی تھی بلکہ مکران کی سماجی درجہ بندی کی بنیاد ذات پات کے نظام کو بھی پامال کرنے سے نہیں کتراتی تھی۔قبائلی دور سے رائج ذات کا تصور غیر قبائلی مکران میں بھی اپنے پوری قوت سے قائم ہے۔ شاہینہ ان حدود کو چھو چکی تھیں جہاں تک ایک بلوچ عورت اپنی زندگی داو پر لگا کر ہی پہنچ سکتی تھی۔مہراب گچکی کی دنیا میں شاہینہ کیلئے کوئی جگہ نہیں جہاں سماجی رتبہ، جرم اور مذہبی انتہا پسندی سے جاملتی ہے ۔
  
قتل سے قریب چھ مہینے قبل شاہینہ نے اپنے ماں کے مخالفت کے باوجود مہراب گچکی کے ساتھ شادی کرلی لیکن ان کے شوہر نے اپنے خود ساختہ رتبے کو جواز بنا کر شادی کا کبھی کھلے عام اقرار نہیں کیا۔ ایک خفیہ شادی کے بعد شاہینہ کو مجبور کیا گیا کہ منظر عام پر نہ آئے کیونکہ شاہینہ کی شہرت انتہا پسند مذہبی گروہوں سے وابستہ ایک خود ساختہ نواب زادے کے رتبے کیلئے خطرہ تھا۔ شاہینہ کو نہ صرف اپنا پیشہ چھوڑنے پر مجبور کیا گیا بلکہ انکی سماجی اور تخلیقی سرگرمیوں پر بھی روک لگا دی گئی۔

قتل سے مہینوں قبل شاہینہ کو کسی سماجی نشست میں نہیں دیکھا گیا۔ 5 ستمبر بروز ہفتہ شاہینہ کو اس کا شوہر ایک مکان میں لے گیا جہاں اسے تشدد کا نشانہ بنانے کے بعد قتل کر دیا گیا۔ شاہینہ کا قاتل جسم اور چہرے پر تشدد کے نشانات کے ساتھ لاش کو اپنی گاڑی میں مقامی ہسپتال کی گیٹ پر چھوڑ کر اس خوف سے آزاد وہاں سے چلا گیا کہ ایک عورت کے قتل کا انجام کیا ہوگا۔

نوٹ: یہ تحریر بلوچستان مارکسسٹ ریویو ٹیم کی مشترکہ کاوش ہے۔

The Agony of Baloch Women

#JusticeForShaheenaShaheen Art by Majida Baloch Instagram @majida.baloch

تحریر اردو میں پڑھنے کیلئے کلک کریں

Shaheena Shaheen’s murder yet again brought into light the vulnerability of Baloch women—especially of those who dare to make their way across the invisible red lines of patriarchy. The Baloch variety of patriarchy also shares the key character of the said system: that the dominance of men over the social, political and intellectual structures, tolerates the inclusion & participation of women in social fields as long as the aspiring women limits herself within the abstractions set by the men. So that they can live, they must not resist appropriation in all of its manifestations. The very moment a daring woman shows any ambitions of outgrowing the narrow man made limits, she is not just threatened and subdued but also tortured and killed in broad daylight, that too with impunity.

On 5th of September, 25 years old Shaheena was murdered in Turbat town allegedly by her husband Nawabzada Mehrab Gichki with whom she was married for about six months. Sources privy to the matter claim that the husband, audaciously called Shaheena’s mother after the incident and asked her to collect the dead body from the district hospital. Gichki’s nonchalance is understandable, as he is a member of the (ex)aristocracy that once ruled Makuran. Although, formal tribal titles are now defunct in the region for over half a century. But the entitlement and social capital carried over, just like many other parts of the world. The bygone tribal aristocracy joined by international drug lords, religious militants, and oligarchs of oil smuggling rackets form and run the murky underworld of Makuran. As shown by repeated incidents in the region, this new criminal alliance has developed deep roots within the state structures as they also work to reinforce the writ of the state in these restive regions.

The unrest in the Baloch society, which was already agitated by the wave of violence targeting women, has further intensified after the murder of Shaheena. Therefore, the disturbing incident is also being viewed by the political class as a continuation of similar attacks on Baloch women. It is argued that the decades long conflict in Balochistan is impacting the entirety of its population, irrespective of gender where women are simply victims of political repression alongside their male counterparts. Beneath the cross gender political repression thesis certain sections of Baloch intelligentsia and the political elites try to cover its internal fault lines which have grown so sharp, intensified under the influence of new forces emerging from within the conflict, that they cannot be ignored any more. Among these fault lines patriarchal repression in the form of male dominance, misogyny, and gender segregation have also translated into violence.

We believe Shaheena became a victim of the patriarchal structures of the society. She had to suffer and embrace a cruel death at a young age because of her gender and because she was a woman who was supposed to obey the commands of her husband, regardless how ridiculous they were. She had to accept restrictions imposed upon her — to quit her social life, to distance herself from her art and to choose silence. Lest we forget, she wanted to be the voice for the voiceless. One must mention that none of the above is experienced by the heterosexual men of the society, nor they make a reason for their death. Of course, there is no denial that for Baloch men, abduction, torture, and death are a everyday reality. But for the women their gender and sexuality are a death sentence, specially for those who choose a liberated life for themselves

This is not just about Shaheena, but every Baloch woman exposed to the changing economic and social conditions. To came out into the public space which is already dominated by men whose most powerful sections in the Baloch society are organized and armed to the teeth poses special risks. This category of heterosexual men can go to any limits to reinforce their dominance at the cost of innocent lives.

Who was Shaheena Shaeen?

The Five Shaheen Sisters: Art by Shaheena Shaheen displayed in the University of Balochistan, Quetta on April 25, 2019.

Shaheena was the eldest among five daughters of Bibi Mahrang, a brave mother from Turbat who has been fighting her own fight against patriarchy. Her father, expecting a male child, left them when her mother gave birth to the fifth girl, leaving the family of five daughters and a mother to survive on their own. Shaheena’s mother embraced the challenges of patriarchy and raised her girls independent of any male support. She is also known as the first woman who drove a car to support her family in Turbat town where even today it is a taboo for most of the female professionals.

Shaheena grew up under a strong woman in a house with no dominant man to impose the patriarchal restrictions. Her mother’s struggle turned the challenges of patriarchy into new possibilities for her daughters, from there she set off on the journey to push further the boundaries for women in Baloch society. Here a generational struggle truly presents the larger Baloch society a immanent moment.

Shaheena began her journey with Dazgohar magazine, the first ever women’s journal in Balochi language to amplify the voice of Baloch women. The first edition of the magazine was published in 2014 when she was a young student. The immature journal stopped there, but she did not. She broke the next barrier by joining the entertainment industry through the state-run PTV Bolan. She started working as host of a morning show in September, 2012. Her role as a female editor of magazine did not attracted much attention. But the entertainment industry was a popular space with majority of its audience being male who could see their patriarchal power and the gender roles breaking apart on the screen.

However, such norms started changing with the capitalist advancement of technology across the globe on the eve of the new millennium. The change came to Baloch society much later and with a slow pace, but it did arrive. The breakdown of social structures created a new stratum of population that was forced by the material conditions of life to deviate against the established norms. The new opportunities created by the increasing monetization of economy and the new technology served as a tool for the growth of the new forms of expression and being within the Baloch society. Shaheena became the face of change. Her tool initially was the electronic media through which she gained outreach to almost every middle-class household in Balochistan. Although she along with a growing number of women in popular space were a source of entertainment for the male audience, but it also showed the women living under oppressive family structures the world beyond the boundaries enacted around them by their so called protectors.

The entertainment industry gave her fame and fortune which enabled her to confront the male dominance of the society and its religious and cultural dogmas. She chose the medium of art to express the agony of Baloch women of which her life story was just another chapter. She started studying fine-arts at the University of Balochistan in 2015 where she graduated with a gold medal. Her efforts indicate that she believed that Baloch women can break free from the chains of patriarchy with the right opportunities.

Her confrontation with the male dominated status quo did not go well for herself. She was forced to marry young with her mismatched cousin at the onset of her fame, as the male authority of the society could not tolerate a young unmarried woman becoming example for the women they suppress at home. She must have misjudged the Baloch patriarchy thinking that her marriage with her cousin will shut the criticism that were coming her way. This first major compromise of hers’ ended in complications and ultimately on divorce. This separation might have been a sigh of relief for her as she returned to her creativity, resuming her young dream of Dazgohar Magazine, and enriching her artistic capabilities in which she had started to craft her new image independent of her fame as a TV host. Her new life introduced her to new elite circles where she met her future husband and alleged murderer, Nawabzada Merhab Gichki.

Her marriage with a person of higher status was an ill-fated union. She knew no artificial boundaries of the regressive society and set on a path that cuts through not just economic and social status, but the notorious hierarchy of zat, the ‘tribal’ caste system of Makuran that still works as a major factor in social stratification. She made it to the glass ceiling, the limits of what a woman in Baloch society can achieve but no further. She had no place in the world of Mehrab Gichki, where crime meets social status and the armed religious dogmas.

Around six months before her murder she got married with Gichki despite her mother’s opposition to another mismatched union. Her husband for his so called status could not even openly admit the marriage. After a secret marriage she was forced to live a life away from the lime light, a life as desired by a criminal influenced by radical religious thoughts. She was forced to quit not just her profession as a host, but also to restrict her social and creative life. She was not seen in any social event for months before her murder. Her last wish was a child from her new marriage. On Saturday, the 5th of September she was taken to a house by her husband, where she was tortured and shot dead. Her murderer, allegedly her husband left the body with scars and slap marks, at district hospital’s entrance and walked away with no fear of whatever consequence her murder might bring.

Note: This feature story is written by Balochistan Marxist Review team in collaboration with the close companions and the family of Shaheena Shaheen.

Art and the Resistance: A Tribute to Shaheena Shaheen

When famous Spanish painter and artist Pablo Picasso painted one of the iconic paintings in history “Guernica” at his home in Paris, a Gestapo officer asked him “Did you do that?” to which Picasso replied, “No, you did it!”

Whether art should have a political purpose or not has for centuries been a subject of debate. Many argue that art cannot be separated from politics while others believe that the purpose of art is to please without any political objective.

The capitalist market forces commodify the very essence of art where its only purpose is to please the oppressive classes. But at the same time art has also been a form of struggle in the hands of revolutionary forces against oppression.

Our art is the art of resistance, the art of struggle, for a new world. We need to ignite the creative fire within us to untangle the false consciousness amongst our people through art. Art that could preserve our culture and identity. Art that could become a political force and bring a social change. Art that could decolonize our minds.

Shaheena Shaheen’s life was a struggle. Her art was resistance. She used her art to portray the resilience and struggle of women in Balochistan. Her self-portrait reminds us of Frida Kahlo that symbolises rebirth, miseries, but also a forlorn hope.

The art exhibition held in Mastung by various progressive groups pays tribute to her feminist art and her courage to become the voice of the voiceless.