Tag Archives: Balochistan Conflict

بلوچستان میں سیاسی بیداری کا نیا دور

Click here to read in English

سانحہ ڈنک اور اس کے خلاف اٹھنے والی رد عمل سے بلوچستان سیاسی بیداری کے ایک نئے دور میں داخل ہوا۔ عام عوام کی ایک بڑی تعداد خاص طور پر نوجوان جو گزشتہ ایک دہائی پر محیط خوف کے ماحول میں سیاسی عمل سے دور ہو گئے تھے ایک عرصے کے بعد پہلی مرتبہ برمش سے یکجہتی کے نعرے کے ساتھ احتجاجی مظاہروں کی شکل میں سڑکوں پر نکل آئے۔ سیاسی گھٹن کے ماحول سے بیزار نوجوانوں نے روایتی قوم پرست اور شاہ کے وفادار سیاسی جماعتوں کے سہارے کے بغیر ایک موثر احتجاجی تحریک چلا کر عوامی سیاست کو واپس اپنے ہاتھوں میں لینا شروع کیا۔ سیاسی بیداری کا یہ عمل اگرچہ سڑکوں پر اور گلی محلوں میں جاری تھا اس کی گونج سوشل میڈیا پر بھی برابر سنائی دی۔ خواتین کی شمولیت نے اس پورے احتجاجی عمل میں ایک نئی جہت کا اظافہ کر دیا۔ یوں نوجوان، طلبہ اور دانشور طبقہ، خواتین کی واضح نمائندگی کے ساتھ ، پارلیمانی اور غیر پارلیمانی سیاست کرنے والے قوم پرست پارٹیوں سے الگ ایک نئی عوامی سیاسی قوت کی شکل میں سامنے آیا جس کی مثال حالیہ بلوچ سیاسی تاریخ میں نہیں ملتی۔ رہنماؤں کے زاتی مفادات کی بنیاد پر منقسم روایتی قوم پرست سیاست کا حصہ بننے کے بجائے عوامی سیاسی بیداری کی نئی لہر اپنے آپ میں منظم ہوتی ہوئی، نئے نعروں کے ساتھ ایک غیر مرکزی عوامی تحریک کی شکل میں سامنے آئی۔

سانحہ ڈنک اور اس کے ایک مہینے بعد ہی تمپ میں کلثوم بی بی کی شہادت سے اٹھنے والی عوامی سیاسی بیداری کی لہر حیات بلوچ کے سفاکانہ قتل سے ایک نئے دور میں داخل ہوا۔ ڈنک اور تمپ واقع کے رد عمل میں ہونے والے احتجاجی مظاہروں کی نسبت حیات بلوچ کی شہادت کے خلاف عوامی سیاسی رد عمل بلوچستان سے باہر بھی واضح طور پر دیکھنے میں آیا۔ بلوچستان کے تمام چھوٹے بڑے شہروں کے علاوہ ملکی سطح پر مختلف ترقی پسند حلقوں کی جانب سے کراچی، حیدرآباد، لاہور اور اسلام آباد میں بھی احتجاجی پروگرام منعقد کیئے گئے۔ وزیرستان جیسے علاقے جو خود دہائیوں سے ظلم و بربریت کا سامنا کر رہے ہیں وہاں بھی مقامی لوگوں کی طرف سے صدائے احتجاج بلند کیا گیا۔ حالانکہ مقامی انتظامیہ اور فرنٹیئر کانسٹیبلری کی جانب سے عوامی جذبات کو ٹھنڈا کرنے کی بھرپور کوشش کی گئی۔ ایف سی نے حالات کی نزاکت کو بھانپتے ہوئےاپنے ایک اہلکار کو پولیس کے حوالے کر دیاجبکہ پولیس نے معمول کے برعکس فوراََ ہی واقع میں ملوث اہلکار کے گرفتار ہونے کا اعلان بھی کر دیاجس کے بعد حکومتی نمائندوں کی جانب سے مذمتی بیانات آنا شروع ہوئے اور یہاں تک کہ آئی جی ایف سے بھی ورثا کے ساتھ تعزیت کرنے شہید حیات کے گھر پہنچ گئے۔ لیکن ان سب کے باوجود واقع کی نو دن بعد 22 اگست کو ملک گیر احتجاجی پروگرام منعقد ہوئے اور لوگ ہزاروں کی تعداد میں حیات کے ساتھ اظہار یکجہتی کیلئے سڑکوں پر نکلے۔

پے در پے ہونے والے دلخراش واقعات کے خلاف عوامی رد عمل در اصل سیاسی گھٹن سے تنگ عوام میں عدم تحفظ کے بڑھتے ہوئے احساس کا اظہار ہے۔ایک اور برمش کی بے بسی، ایک اور ملک ناز، کلثوم یا پھر حیات جیسے نوجوان کا قتل دیوار پہ لکھا نظر آتا ہے۔ اس ناقابل گریز خطرے کا احساس سیاسی طور پر باشعور نوجوانوں کی ایک نمایاں تعداد کو سیاسی میدان میں دکھیلنے کا سبب بنا جس سے سالوں سے قائم خوف کا حصار بلآخر ٹوٹ گیا۔ برمش کے ساتھ ہمدردی کیلئے بنائی گئی کمیٹیوں سے جو سیاسی ماحول بنا اسے کسی ایک واقعے تک محدود کرنا ممکن نہ تھا اور نہ ہی سیاسی میدان میں فعال کسی گروہ میں اس نئی سیاسی قوت کو اپنے اندر سمونے کی سکت تھی۔

ایک وسیع تر پر امن عوامی تحریک کے مادی حالات اپنی نقطہ عروج تک پہنچتے جا رہے ہیں جس کا اظہار سیاسی و سماجی جبر کے خلاف اٹھنے والے عوامی رد عمل کی شکل میں ہو رہا ہے ۔ ایک پر امن تحریک جو سماج کی نمایاں سیاسی قوت بنے خارج از امکان نہیں۔ اس تحریر میں ہم برمش یکجہتی کمیٹیوں سے شروع ہونے والے عوامی سیاسی بیداری کے اس لہر کا ایک وسیع تر عوامی سیاسی تحریک میں تبدیل ہونے کے امکانات اور ترقی پسند قوتوں کی تاریخی کردار کا جائزہ لینگے۔

عوامی تحریک کیلئے سازگار ہوتے حالات

جرائم پیشہ گروہوں یا بدنام زمانہ ڈیتھ اسکواڈ کے ہاتھوں ملک ناز اور کلثوم کی شہادت ہو یا ایف سے اہلکاروں کے ہاتھوں حیات بلوچ کی شہادت اگر دیکھا جائے تو تینوں واقعات بلوچستان میں جاری شورش سے جڑے ہیں۔ جنرل مشرف کی فوجی حکومت کے دوران شروع ہونے والی سیاسی کشیدگی نے نواب اکبر بگٹی کی شہادت کے بعد جنگ کی شکل اختیار کرلی جو کہ آگے جا کر خوف کے دہائی میں منتج ہوا جہاں جبری اغوا اور مسخ شدہ لاشیں معمول بن گئی۔ ملک ناز اور کلثوم کی شہادت میں ملوث گروہ اسی دوران سامنے آئے جن کا بنیادی مقصد مخالف مسلح تنظیموں کو ختم کرنا تھا۔ اپنے مقصد میں کسی حد تک کامیاب ہونے کے بعد ان گروہوں کو ختم نہیں کیا گیا بلکہ وہ لاقانونیت کے ماحول میں پھلتے پھولتے رہے اور جلد ہی پر امن شہریوں اور خاص طور پر کمزور طبقات پر ٹوٹ پڑے۔

ان گروہوں کے سفاکانہ کاروائیوں کا نشانہ عموماََ بزگر، دہقان اور روزنداری پر گزارہ کرنے والا محنت کش طبقہ یا پھر چھوٹے پیمانے پر زمینداری یا دیگر کم آمدنی والے کاروبار پر گزارا کرنے والا سفید پوش اور نسبتاََ تنگ دست طبقات ہوتے۔ بلوچستان کی مقامی معیشت کا انحصار بنیادی طور پر زراعت، مالداری اور ماہی گیری جیسے کم پیداوار ی شعبوں پر ہے ۔ بارڈر سے منسلک متوازی معیشت مکران سمیت اندرون بلوچستان کیلئے ایک متبادل زریعہ معاش بن چکا ہے ۔ مقامی معیشت میں زبوحالی سے متاثر محنت کش عوام کی کثیر تعداد بارڈر کے غیر مستحکم کاروبار سے وابستہ ہے جہاں بمشکل ہی لوگوں کا گزر بسر ہوجاتا ہے۔ ریاستی معیشت کا کردار عوامی سطح پر سرکاری نوکریوں تک محدود ہے جسے واحد مستحکم زریعہ معاش کی حیثیت حاصل ہے ۔ قدرتی وسائل جن کی وجہ سے بلوچستان عالمی دنیا میں جانا جاتا ہے کبھی بھی مقامی معیشت کا حصہ نہ بن سکے ۔ بلکہ ہمیشہ سے ہی قدرتی وسائل مقامی لوگوں کے استحصال کا سبب بنے جن سے ہونے والی اربوں ڈالر کی پیداوار سے ایک طرف قبائلی بالادست طبقہ اور سیکیورٹی اسٹیبلشمنٹ مضبوط ہوا ہے وہیں غربت کے شکار مقامی محنت کش آبادیوں کیلئے معاشی مواقع مزید کم تر ہوئے اور ان کی حالت مزید ابتر ہوتی گئی۔

ان معاشی سختیوں سے دوچار محنت کش، چھوٹے زمیندار اور کاروباری طبقہ کو اپنے روز مرہ کی زندگی میں کھیتوں پر کام کرتے ہوئے، بازاروں میں دوران کاروبار اور یہاں تک کے فارغ اوقات میں اپنے گلی محلوں میں یا تفریح گاہوں میں نہ صرف سیکیورٹی فورسز کا بلکہ ان جرائم پیشہ گروہوں اورڈیتھ اسکواڈز کا بھی روزانہ کی بنیاد پر سامنا کرناپڑتا ہے جہاں کسی بھی لمحے کوئی سانحہ رونما ہونے کے امکان موجود ہوتے ہیں۔ یہی کچھ حیات اور ان کے والدین کے ساتھ ہوا۔ ہر وہ دہقان جو روزانہ کھیتوں پر کام کرنے جاتا ہے، ہر مچھیرا جو سمندر میں رزق کی تلاش میں نکلتا ہے اور ہر دکان دار جو کاروبار کیلئے بازار کا رخ کرتا ہے وہ ہر لمحہ اسی خوف سے گزر رہا ہوتا ہے۔

بلوچستان کا مقامی بورژوازی یا بالادست طبقہ جو کہ قبائلی ایلیٹ اور دولت کا وسیع زخیرہ رکھنے والے کاروباری طبقے، سیاستدان اور بیوروکریٹس پر مشتمل ہے اس شورش زدہ صورتحال میں خصوصی رعایت رکھتے ہیں جنہوں نے عوام کی محنت کی کمائی کا بڑا حصہ ہتھیا کر یا پھر ان کے ترجمانی کے نام پر سیاسی زرائع سے دولت جمع کر کے اپنے دفاع کیلئے لشکر کھڑے کیئے ہیں۔ ان کے پاس اتنے مسلح لوگ ہمہ وقت موجود ہوتے ہیں جو پر تشدد واقعات میں ان کی ذاتی حفاظت کر سکیں جبکہ عام عوام انہی واقعات میں آسانی سے نشانہ بن جاتے ہیں۔ مقامی بالادست طبقہ بیک وقت مسلح تنظیموں اور سیکیورٹی فورسز کے تشدد سے اپنے محافظوں کی مسلح قوت یا پھر بالادست طبقے میں اپنی حیثیت کی بنیاد پر اپنی حفاظت کرتا ہے۔ حیات شاید بچ سکتا تھا اگر اسے سول سروسز کا امتحان پاس کرکے بیوروکریسی کے توسط سے مراعات یافتہ طبقے کا حصہ بننے کا موقع ملتا لیکن وہ ایک محنت کش کا بیٹا تھا جنہیں بم دھماکوں کے باوجود اپنے کھیتوں میں رہ کر محنت کرنا تھا۔

گزشتہ تین دہائیوں سے یہی بالادست طبقہ مختلف قوم پرست پارٹیوں کی قیادت کی شکل میں بلوچ سیاست پر براجمان ہے۔ اس دوران یہ طبقہ سردار نوابوں کی اولادوں اور متوسط طبقے کے کاروباری شخصیات اور بیوروکریٹس کی حیثیت سے برائے راست سرمایہ دار بنا یا پر سرمایہ دارانہ معیشت میں کمیشن خوری کے زریعے حصہ دار بن گیا۔ آج ان نام نہاد قوم پرست سیاست دانوں کے پاس دولت کے انبار لگے ہیں جو کہ نہ صرف مقامی طور پر جائیدادیں رکھتے ہیں بلکہ خلیجی ممالک سمیت دنیا کے دوسرے حصوں میں عالمی سرمایہ داروں کے ساتھ ان کے شراکت داریاں چل رہی ہیں۔ ان کا بیشتر سرمایہ بیرون ملک منڈیوں میں لگا ہوتا ہے جس کا اظہار مقامی طور پر صرف ان کے اولاد کی شاہانہ طرز زندگی میں نظر آتا ہے۔ ان بورژوا سیاستدانوں کی اولادیں بڑی شان سے اپنی طبقاتی برتری اور دولت کی نمائش ایک ایسے سماج میں کرتے ہیں جو اپنے آپ میں معاشی بدحالی کی ایک مثال ہے جہاں عوام کی اکثریت بنیادی سہولیات سے محروم سماجی اور سیاسی انتشار کی سی کیفیت سے دوچار ہیں۔ بلوچستا ن کا بورژوازی جس کی جڑیں قوم پرستی کی سیاست میں پیوست ہیں کبھی بھی اپنے معاشی اور سماجی مراعات کا اعتراف نہیں کرتے ۔ بلکہ ان کی سیاست کا زور اسی تصور پر قائم ہے کہ بلوچ اور بلوچستان کا استحصال قومی بنیاد پر ہو رہا ہے جس سے وہ بھی اتنے ہی متاثر ہیں جتنا کہ معاشی طور پر زبوں حالی کا شکار اور سماجی طور پر انہی کے زیر دست ایک عام بلوچ۔

بلوچستان کے زیر دست طبقات کا سیاسی طور پر باشعور حصہ تاریخی طور پر انہی بورژوا قیادت کے ساتھ وابستہ رہا ہے جنہوں نے ہر دور میں اپنے طبقاتی مفادات کو اولیت دیتے ہوئے عوامی توقعات کو پس پشت ڈالا ہے۔ قوم پرست قیادت کی اسی حقیقی کردار کے سامنے آنے کے سبب حالیہ برسوں میں زیر دست طبقات اور مراعات یافتہ قومی قیادت کے درمیان وابستگی ختم ہو کر بیگانگی کی شکل اختیار کرتا جا رہا ہے۔ یہ بیگانگی قومی سیاست میں واضح طور پر نظر آتا ہے جہاں عوام کی اکثریت بلعموم سیاسی عمل سے بیگانگی کا شکار ہوتے جارہے ہیں۔ قوم پرست پارٹیوں کی گرفت سے آزاد طلبا تنظیموں، سول سوسائٹی اور عوامی یکجہتی کے مقامی تنظیموں کی شکل میں مختلف غیر روایتی بنیادوں پر لوگوں کا اکھٹا ہونا سابقہ سیاسی قوتوں سے اسی بیگانگی کا اظہار ہے۔

عوامی سیاسی یکجہتی

گزشتہ دہائی کے خوف کے ماحول میں ایک نئی نسل پروان چھڑ چکی ہے جو اب طلبہ اور نوجون سیاست کا ایک فعال حصہ ہے۔ نئی نسل جس کا حیات بلوچ حصہ تھے سیاسی تنازعات سے آگے سوچنا چاہتے ہیں۔ وہ اپنے معاشی حالات، بوسیدہ سماجی ڈھانچے اور قومی قیادت کے دیوالیہ پن کا سیاسی ادراک رکھتے ہیں۔ اپنے تعلیمی اداروں میں، کھیتوں میں، گلی محلوں میں سکیورٹی کے نام پر اسلحہ برداروں کی موجودگی سے اکھتائے ہوئے نوجوانوں کیلئے مزید کسی ڈیتھ اسکواڈ کے خوف کے سائے میں رہنا نا ممکن ہو چکا ہے۔بلوچستان کا نوجوان عوامی جذبات بھڑکانے والے موقع پرست سیاسی قیادت کے پیچے چلنے سے انکار کرتے ہوئے ایک آزاد اورباوقار زندگی گزارنا چاہتے ہیں۔ یہی سیاسی قوت وہ خام مال ہے جس سے شورش زدہ ماحول میں ایک نیا سماجی و سیاسی تحریک جنم لے سکتا ہے۔

مکران جہاں مزکورہ تینوں افسوسناک واقعات رونما ہوئے وہاں پر امن سیاسی احتجاج کی نئی لہر کی قیادت سول سوسائٹی کر رہی ہے جس میں طلبہ و طلبات ایک فعال کردار ادا کر رہے ہیں۔ بلوچستان میں سول سوسائٹی نسبتا نیا مظہر ہےجو کہ شہری آبادی کے پھیلاؤ اور پڑے لکھے طبقات میں بڑھتے شہری حقوق کے ادراک کے ساتھ ساتھ سامنے آیا ہے۔ شہری مراکز میں انتظامی اداروں کی مفاد عامہ سے مکمل لاتعلقی اور کرپشن کی وجہ سے تربت اور پنجگور جیسے مرکزی شہر پانی، بجلی اور گیس جیسے بنیادی سہولیات سے محروم ہیں ۔تعلیم یافتہ نوجوانوں اور دانشور ادیبوں کا مختلف سماجی تنظیموں میں متحرک ہونا انہی بنیادی مسائل پر عوامی سیاسی رد عمل کا ابتدائی اظہار ہے۔ ایسے حالات میں جبکہ عوامی مسائل کے حل کیلئے حقیقی سیاسی سرگرمیوں پر مختلف قدغنیں ہیں سول سوسائٹی ایک متحرک سیاسی قوت کے طور پر سامنے آیا جو سماج کے مختلف پرتوں کواجتماعی مسائل کے حل کیلئے وقتی طور پر ہی سہی لیکن ایک مشترکہ پلیٹ فارم پر لانے کا سبب بنا۔

ڈنک واقع کے بعد پہلی مرتبہ سیاسی مسائل جنہیں عموماً نظر انداز کر دیا جاتا تھاسول سوسائٹی کے ایجنڈے کا حصہ بن گئیں ۔ البتہ انفرادی واقعات کے رد عمل میں سیاسی طور پر باشعور طبقات کو متحرک کرنے میں اہم کردار رکھنے کے باوجود سول سوسائٹی عوامی رد عمل کو ایک با اثر تحریک میں تبدیل کرنے سے قاصر رہی۔ سیاسی میدان میں سول سوسائٹی کا محدود کردار برمش یکجہتی کیمپین میں واضح ہوا جہاں بے مثال عوامی رد عمل ایک پائیدار سیاسی تحریک میں منتقل نہ ہو سکا۔ اپنی مخصوص ساخت میں سول سوسائٹی کی افادیت مجرمانہ واقعات میں ملوث قوتوں کی مذمت اور متاثرین کے ساتھ ہمدردی تک ہی محدود ہے۔

ایک ترقی پسند تحریک کی ضرورت

معاشی و سیاسی جبر کی حکومت اور اس سے پیدا ہونے والی خونی تنازعہ کا حل سماج پر سیاسی اختیار کا مسئلہ ہے اور اس وقت تک حل نہیں ہو سکتا جب تک جبر کے شکار عوام ایک انقلابی پروگرام کے تحت منظم ہوکر سیاسی قوت اپنے ہاتھوں میں نہیں لیتے۔ ایک منظم ترقی پسند لائحہ عمل کے بغیر سول سوسائٹی کی سیاسی قوت بہ آسانی روایتی رجعتی گروہوں کے ہاتھوں میں مرکوز ہو سکتی ہے جن کا مقصد عوامی سیاسی قوت کو اپنے گروہی مفادات کے حصول کیلئے استعمال کرنا ہے۔ عوام کی سیاسی قوت کو یکجا کر کے اسے ایک پر امن سیاسی تحریک کی شکل میں منظم کرنا ان قوتوں کے ہاتھوں ممکن نہیں جن کی سیاسی قوت کا دار و مدار جبر کے شکار عوام کی حمایت کے بجائے اشرافیہ یا پھر عالمی سرمایہ داروں کی خوشنودی حاصل کرنے پر ہو۔

عوام کر متحد اور منظم کرنے کیلئے ان ترقی پسند قوتوں کو آگے آنا ہوگا جو سماج میں رائج بالادستی کے ڈھانچوں کا حصہ بننے کے بجائے عوامی سیاسی قوت کی بنیاد پر سیاسی و سماجی بالادستی اور اس سے پیدا ہونے والی جبر کے مکمل خاتمے سماجی برابری اور انصاف پر یقین رکھتے ہوں۔ ترقی پسند قوتوں کی یہ تاریخی زمہ داری بنتی ہے کہ وہ آپس میں متحد و منظم ہو کر عوام میں اپنی جڑیں مضبوط کریں اور ایک ایسے عوامی تحریک کی آبیاری کریں جس کی قوت اور قیادت بالادست طبقات یا عالمی سرمایہ داروں کے نمائندوں کے بجائے عوام کی اپنے ہاتھوں میں ہو۔

شاہینہ شاہین کا قتل اور بلوچ عورت کا کرب

The Five Shaheen Sisters: Art by Shaheena Shaheen displayed in the University of Balochistan, Quetta on April 25, 2019.

Click here to read the article in English

شاہینہ شاہین کا قتل بلوچ سماج میں عورتوں کی گھمبیر صورتحال کو ایک مرتبہ پھر منظر عام پر لے آیا ہے۔ بلوچ خواتین خاص طور پر وہ جو پدرشاہی کی سرخ لکیر کو پار کرنے کی ہمت کرتی ہیں وہ اس پر خطر صورتحال میں سب سے زیادہ متاثرہیں۔

بلوچ سماج میں پدرشاہی اپنی تمام تر جاوجلال کے ساتھ وجود رکھتی ہے جہاں سماجی، سیاسی اور فکری زندگی میں مردوں کی بالادستی عورت کی شمولیت کو صرف اس تک ہی برداشت کرتی ہیں جہاں یا تو عورت کا کردار مردوں کی متعین کردہ حدود کے اندر بند ہو تا کہ وہ زندہ تو رہے لیکن اپنی زندگی پر مرد کی اجارہ داری کے خلاف کبھی نہ اٹھ سکے۔

جوں ہی اک بہادر عورت مرد کی متعین کردہ تنگ دائروں سے آزاد ہونے کے عزم کا اظہار کرتی ہے اسے نہ صرف ڈرا دھمکا کر خاموش کرایا جاتا ہے بلکہ تشدد کا نشانہ بنا کر دن دھاڑے قتل کردیا جاتا ہے اور قاتل آزاد گھومتے رہتے ہیں جیسے کچھ ہوا ہی نہ ہو۔ 

ستمبر کی 5 تاریخ کو 25 سالہ شاہینہ کو تربت میں مبینہ طور پر ان کے شوہر مہراب گچکی نے قتل کیا اور لاش مقامی ہسپتال کے باہر چھوڑ کر فرار ہو گیا۔ مہراب کے ساتھ شاہینہ کی شادی چند مہینے قبل ہوئی تھی۔ باخبر ذرائع کے مطابق شوہر نے قتل کے بعد بلا خوف و خطر شاہینہ کی ماں کو فون کیا اور انہیں ہسپتال سے اپنی بیٹی کی لاش اٹھانے کا کہا۔

مکران کے سماجی و سیاسی حالات میں مہراب گچکی کی اپنے انجام سے بے فکری قابل فہم ہے۔ سابق والی مکران گچکی خاندان کا فرد ہونے کہ وجہ سے مہراب کو ایک عو رت کے قتل پر نا قانون کا سامنا ہے اور نہ ہی کسی مقامی جرگے کا جس کا ڈر اسے کسی ایسے مزموم حرکت سے باز رکھتا۔ اگرچہ مکران سے قبائلی اثر رسوخ ختم ہوئے نصف صدی سے زائد گزر چکا ہے لیکن صدیوں پر محیط ظلم و جبر کی بنیاد پر قائم سماجی برتری اب بھی نہ صرف وجود رکھتی ہے بلکہ کھل کر اپنے وجود کا احساس بھی دلا رہا ہے۔

سابقہ قبائلی حیثیتیں نئے دور کے معاشی قوتوں بین الاقوامی منشیات کے کاروبار، مذہبی شدت پسندی اور تیل کے بیوپار سے وابستہ چند منظم گروہوں کے ساتھ مل کر مکران میں جرم کی نئی سلطنت چلا رہے ہیں۔ حالیہ دنوں میں رونما ہونے والے واقعات میں ان گروہوں کے کردار اور ان کو ملنے والی کھلی چھوٹ سے ان کی مقتدر اداروں سے وابستگی کا اندازہ لگانا مشکل نہیں۔

شاہینہ کے قتل سے بلوچ سماج میں پہلے سے موجود بے چینی میں اضافہ ہوا ہے جو کہ عورتوں پر ہونے والے حملوں کی حالیہ سلسلے کی وجہ سے پیدا ہوا ہے ۔ سیاسی حلقوں کی جانب سے شاہینہ کے قتل کو بلوچ عورتوں پر ہونے والے حملوں کے تسلسل کا حصہ قرار دیا جا رہا ہے۔

عمومی تاثر یہ ہے کہ دہائیوں پر محیط کشیدگی پورے سماج کو متاثر کر چکا ہے جہاں مردوں کے ساتھ ساتھ اب خواتین بھی برائے راست نشانہ بن رہی ہیں البتہ سیاسی جبر کے علاوہ بلوچ سماج کے اندر جبر کی مختلف اندرونی شکلیں بھی وجود رکھتی ہیں جنہوں نظر انداز کیا جاتا ہے۔ بلوچ سماج کا اندرونی جبر سیاسی کشیدگی کے زیر اثر ایک اندوہناک شکل اختیار کر چکا ہے جسے مزید نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔پدرشاہی کا جبر انہی اندرونی جبر کی مختلف شکلوں میں سے ایک ہے جو سماج پر مرد کی بالادستی،عورت مخالف رویہ اور صنفی امتیاز کی عمومی اظہار کے ساتھ ساتھ عورتوں پر تشدد کی مختلف شکلوں میں منظر عام پر آرہا ہے۔ 

ہم یہ سمجھتے ہیں کہ شاہینہ بلوچ سماج کی پدرشاہانہ ساخت میں موجود اندرونی جبر کا نشانہ بنی۔شاہینہ کو جوانی میں تشدد اور موت کا سامنہ کرنا پڑا کیونکہ وہ ایک عورت تھی جسے ہر حال میں اپنے شوہر کے خواہش کے مطابق زندگی گزارنی تھی چائے وہ خواہشات کتنی ہی مذموم کیوں نہ ہوں۔ اسے خود پر لگائی گئی بےجا پابندیاں قبول کرنی پڑیں، اپنی سماجی زندگی سے قطع تعلق کرنا پڑا، اپنے فن سے دستبردار ہونا پڑا، اور سب سے بڑھ کر اسے خاموش ہونا پڑا اس شاہینہ کو جسے دوسرے بے آواز عورتوں کی آوازبننا تھا۔ بلوچ سماج میں کسی بھی مرد کو اپنے صنف کی وجہ سے کبھی بھی ایسی پابندیوں کا سامنا نہیں کرنا پڑتا  جن کی خلاف ورزی کی سزا موت ہو۔ بلا شبہ بلوچ مرد کو شدید سیاسی جبر کا سامنہ ہے جہاں وہ روزانہ کی بنیاد پر لاپتہ ہوتے ہیں، تشدد جھیلتے قتل کر دیئے جاتے ہیں لیکن بلوچ عورت کیلئے سیاسی جبر کے علاوہ صرف اس کا صنف قتل کا پروانہ ثابت ہو رہا ہے خاص طور پر ان خواتیں کیلئے جو مردوں کی تعین کردہ حدود سے آزاد زندگی گزارنا چاہتی ہیں۔ 

یہ کہانی صرف شاہینہ کی نہیں بلکہ بلوچستان کے ہر اس عورت کی کہانی ہے جو بدلتے معاشی و سماجی حالات میں تنگ دائروں سے نکل کر اس سماج زندگی کا حصہ بننا چاہتی ہے جس پر مردوں کا غلبہ ہے ان میں سے کچھ مرد گروہوں کی شکل میں نہ صرف منظم ہیں بلکہ مسلح بھی ہیں اور عورت پر اپنی مردانہ بالادستی قائم کرنے کیلئے معصوم زندگیوں سے کھیلنے سے بھی گریز نہیں کرتے۔

شاہینہ شاہین کون تھی؟

شاہینہ بی بی ماہ رنگ کی پانچ بیٹیوں میں سے سب سے بڑی تھی۔ شاہینہ کی ماں ماہ رنگ اپنے آپ میں پدرسری معاشرے کے خلاف جد و جہد کی ایک مثال ہیں۔ بیٹا نہ ہونے کی باعث پانچویں بیٹی کی پیدائش پرباپ نے جوان ماں کو بیٹیوں کے ساتھ بے آسرا چھوڑ کران سے قطہ تعلق کر لیا۔ بی بی ماہرنگ نے پدر شاہی کے سامنے ہار نہیں مانی اور اپنی بیٹیوں کو کسی مرد کے سہارے کے بغیر اپنے پاؤں پر کھڑا کیا۔انہیں تربت میں پہلی خاتون ہونے کا اعزاز حاصل ہے جس نےاپنے بیٹیوں کو پالنے کیلئے خود گاڑی چلائی۔ آج بھی تربت شہر میں عورت کے گاڑی چلانے کو معیوب تصور کیا جاتا ہے اور بہت سے ایسے خواتین جو ملازمت کرتی ہیں اپنے خاندان کے مردوں کی دباؤ کی وجہ سے خود گاڑی نہیں چلا سکتے۔
 
شاہینہ کی پرورش ایک مضبوط عورت کی زیر سایہ ایک ایسے گھر میں ہوئی جہاں پدرشاہی کے قوائد و ضوابط نافظ کرنے والا بالادست مرد کوئی نہیں تھا۔ ان کی ماں نے مردوں کے سماج سے لڑتے ہوئے اپنی بیٹیوں کیلئے نئے مواقع پیدا کیئے جو کہ بلوچ سماج میں اکثر خواتین کے دست رس سے باہر ہوتی ہیں۔ شاہینہ یہیں سے اپنے جہدوجہد کا آغاذ اس مقصد کے ساتھ کرتی ہیں کہ جو مواقع اسے حاصل ہوئیں وہ بلوچستان کی تمام عورت کی حاصل ہوں۔ ماہ رنگ کی جدوجہد نئی نسل میں منتقل ہو چکی تھی جس نے اسے پورے سماج میں پھیلانے کا بیڑا اٹھایا۔

شاہینہ نے آغاز ‘دزگہار’ سے کیا جسے بلوچی زبان میں عورتوں کی پہلی میگزین ہونے کا اعزاز حاصل ہے۔ دزگہار کی پہلی جلد 2014 میں شایع ہوئی جس کا مقصد خاتون لکھاریوں کو عورتوں کیلئے مخصوص پلیٹ فارم مہیا کرنا تھا۔دزگہار پہلی اشاعت کے بعد وقتی طور پر رک گیا لیکن شاہینہ کہیں نہیں رکیں۔ اپنے اگلے محاذ پر انہوں نے پی ٹی وی بولان کے اسٹیج کے توسط سے انٹرٹینمنٹ انڈسٹری میں قدم رکھا۔ شاہینہ کاکردار بطور میگزین ایڈیٹر خاص توجہ کا سبب نہیں بنا لیکن انٹرٹینمنٹ انڈسٹری ایک عوامی مقام تھا جس کے اکثریتی ناظرین مردوں پر مشتمل تھی جو کہ اپنے ٹی وی اسکرین پر مردوں کی صنفی برتری اور سماج میں رائج مرد اور عورت کے مخصوص کردار کو تبدیل ہوتے ہوئے ناگواری کے ساتھ دیکھ رہے تھے۔
   
اکیسیوں صدی کے ظہور کے ساتھ رونما ہونے والی تبدیلیوں کے آثار اگرچہ بلوچستان میں دیر سے پہنچے لیکن وہ پہنچے ضرور۔ٹیکنالوجی کی سرمادارانہ ترقی اور معاشی ڈھانچوں کی مونیٹایزیشن کے زیر اثر زوال پزیر سماجی ساخت میں نئے اور ترقی پسند پرتیں سامنے آنا شروع ہوئیں۔ نئے مادی حالات رائج الوقت پسماندہ اقدار کے ساتھ ہم آہنگ نہ ہونے کی وجہ سے تبدیلی کا سبب بنیں جس کے بطن سے سماجی وجود کے اظہار کی نئی شکلیں سامنے آئیں۔ 

شاہینہ سماجی تبدیلی کا چہرہ تھیں۔ انہوں نے اپنا زریعہ میڈیا کو بنایا جس کے توسط سے بلوچستان کے متوسط طبقے کے ہر گھر تک ان کی آواز اور ان کا پیغام پہنچا۔ شاہینہ اور ٹی وی اسکرین پر آنے والی ان جیسی بہت سی دیگر بلوچ خواتیں اگرچہ اکثر مرد ناظریں کیلئے انٹرٹینمنٹ کے علاوہ کچھ نہیں تھی لیکن مردوں کی دنیاں میں قید خواتین ناظرین کیلئے وہ ایک نئی دنیا کے ترجمان تھی ۔انہوں نے بلوچ خواتین کو اپنے خود ساختہ محافظ مردوں کی دنیا سے پرے دیکھنے کی ترغیب دی۔

انٹرٹینمنٹ انڈسٹری نے شاہینہ کو مشہوری کی ساتھ ساتھ معاشی طور پر مستحکم بنایا جس سے وہ اس قابل ہوئی کہ سماج پر مردوں کی بالادستی اور اس کی نتیجے میں بننے والے ثقافتی اور مذہبی اقدار کو للکار سکے۔ شاہینہ نے آرٹ کے زریعے بلوچ عورت کے کرب کو کینوس پر اتارا جو کہ ہر بلوچ عورت کی طرح اس کی اپنی ذاتی زندگی کا کرب بھی تھا۔شاہینہ نے اپنی فنی علم کو وسیع کرنے کیلئے بلوچستان یونیورسٹی میں فنون لطیفہ کے شعبے میں داخلہ لیا جہاں سے 2015 میں انہیں ان کی قابلیت کے اعتراف میں گولڈ مڈل سے نوازا گیا۔ شاہینہ کا ماننا تھا کہ بلوچ خواتین کو مناسب مواقع فراہم ہوں تو وہ پدرشاہی نظام کے زنجیروں سے آزاد ہو کر ایک نئی دنیا تخلیق کرسکتی ہیں۔

مردوں کی بالادستی پر قائم اسٹیٹس کو کے خلاف جانے کی قیمت شاہینہ کو اپنی زندگی میں پل پل چکانا پڑی۔ انہیں نوجوانی میں اپنی کزن کے ساتھ ایک بے جوڈ شادی پر راضی ہونا پڑا کیونکہ مردانہ سماج ایک غیر شادہ شدہ عورت کو کسی صورت برداشت نہیں کر سکتی تھی جو ان عورتوں کیلئے ایک مثال بننے جارہی تھی جن عورتوں کو مردوں نے اپنے سوچ کے تنگ دائروں میں قید رکہا ہوا ہے۔ شاہینہ نے بھی سوچا ہوگا کہ شاید شادی کے بعد ان پر انگلیاں اٹھنا بند ہو جائینگی لیکن ایسا نہ ہو سکا۔ ان کی اس سمجھوتے کا نتیجہ ذاتی زندگی میں پیچیدگیوں اور بلاخر طلاق پر ختم ہوا۔ پہلے شوہر سے علیحدگی مختصر مدت کیلئے ہی سہی سکھ کا سبب بنی اور شاہینہ بھرپور انداز میں اپنے تخلیقی سرگرمیوں کی طرف لوٹ گئی۔ اسی دوران شاہینہ نے اپنے جوان خواب کی تعبیر میں دزگہار میگزین کی اشاعت دوبارہ شروع کی اور اپنے آرٹ کے زریعے ایک نئی پہچان بنانے لگی جو کہ ان کی بطور ٹی وی میزبان شناخت سے یکسر مختلف تھی۔ اپنی نئی زندگی میں شاہینہ کی ملاقات ان کے  ہونے والے شوہر اور مبینہ قاتل نوابزادہ مہراب گچکی سے ہوئی۔ 

شاہینہ پسماندہ سماج کے اونچ نیچ پر مبنی حد بندیوں اور تقسیم پر یقین نہیں رکھتی تھی۔وہ ایک ایسے راستے پر گامزن تھیں جو نہ صرف معاشی اور سماجی سرحدوں کے آر پار جاتی تھی بلکہ مکران کی سماجی درجہ بندی کی بنیاد ذات پات کے نظام کو بھی پامال کرنے سے نہیں کتراتی تھی۔قبائلی دور سے رائج ذات کا تصور غیر قبائلی مکران میں بھی اپنے پوری قوت سے قائم ہے۔ شاہینہ ان حدود کو چھو چکی تھیں جہاں تک ایک بلوچ عورت اپنی زندگی داو پر لگا کر ہی پہنچ سکتی تھی۔مہراب گچکی کی دنیا میں شاہینہ کیلئے کوئی جگہ نہیں جہاں سماجی رتبہ، جرم اور مذہبی انتہا پسندی سے جاملتی ہے ۔
  
قتل سے قریب چھ مہینے قبل شاہینہ نے اپنے ماں کے مخالفت کے باوجود مہراب گچکی کے ساتھ شادی کرلی لیکن ان کے شوہر نے اپنے خود ساختہ رتبے کو جواز بنا کر شادی کا کبھی کھلے عام اقرار نہیں کیا۔ ایک خفیہ شادی کے بعد شاہینہ کو مجبور کیا گیا کہ منظر عام پر نہ آئے کیونکہ شاہینہ کی شہرت انتہا پسند مذہبی گروہوں سے وابستہ ایک خود ساختہ نواب زادے کے رتبے کیلئے خطرہ تھا۔ شاہینہ کو نہ صرف اپنا پیشہ چھوڑنے پر مجبور کیا گیا بلکہ انکی سماجی اور تخلیقی سرگرمیوں پر بھی روک لگا دی گئی۔

قتل سے مہینوں قبل شاہینہ کو کسی سماجی نشست میں نہیں دیکھا گیا۔ 5 ستمبر بروز ہفتہ شاہینہ کو اس کا شوہر ایک مکان میں لے گیا جہاں اسے تشدد کا نشانہ بنانے کے بعد قتل کر دیا گیا۔ شاہینہ کا قاتل جسم اور چہرے پر تشدد کے نشانات کے ساتھ لاش کو اپنی گاڑی میں مقامی ہسپتال کی گیٹ پر چھوڑ کر اس خوف سے آزاد وہاں سے چلا گیا کہ ایک عورت کے قتل کا انجام کیا ہوگا۔

نوٹ: یہ تحریر بلوچستان مارکسسٹ ریویو ٹیم کی مشترکہ کاوش ہے۔

Birth of a Movement: Transformation of Bramsh Solidarity Committees

Picture by: Zahid Ali Baluch @ instagram.com/zahid_ali_baluch/ 22 August, 2020 at Karachi Press Club

Baloch society has entered into a new phase of political mobilization since the Dan’nuk incident1. A growing number of students, youth, and ordinary citizens, previously withdrawn from political activities during the ‘reign of terror’, a decade of state atrocities that is epitomised in the popular but also gory phrase of “kill and dump” started reclaiming the popular political space from the conventional nationalists as well as the king’s party. This mobilization is happening in the streets as well as on the social media, with a leading role of students and an unprecedented presence and participation of women. This new political force, comprising of students, youth, and intellectuals has started organizing independent of both bourgeoisie parliamentary parties and the separatist militant groups. Organizing on its own, crafting its own slogans, and perhaps most importantly, refusing to be a part of reactionary nationalism divided on the lines of personal interests of the elite leadership. The new phase of Baloch political mobilization is taking a shape of its own – a decentralized solidarity movement.

Since Bramsh incident, the new phase of mobilization has entered into its third and most intense wave of protests which were sparked by the killing of Hayat Baloch who was murdered by the Frontier Constabulary with such brutality that it shook the society to its core. Unlike the solidarity campaign for Bramsh, and the protests against killing of Kulsoom Bibi2, the new wave has spread to more constituencies not just in the native land of Hayat Baloch but also in major cities such as Karachi, Hyderabad, Lahore and Islamabad attracting crowds from progressive circles in the urban centres. Solidarities also poured in from the politically marginalized Pashtun areas such as Waziristan that has witnessed its own episode of atrocities in the hands of similar forces. The keynote protest event was held on 22 August3, nine days after the murder, despite the fact that all attempts were made by the law enforcement agencies to defuse the situation through symbolic actions. The Frontier Constabulary, known by its acronym FC, anticipating sensitivity of the matter, surrendered one of its soldiers into police custody. The police showed unprecedented proactiveness by proclaiming the arrest of the soldier, even before a FIR could be lodged. In the follow up, condemnations poured in from government officials which peaked on an unprecedented visit by the Inspector General of the paramilitary force to the victim family.

The masses mobilized in response to the killing of Hayat Baloch, refuse to give in to the manoeuvres by the government and PR exercises by the FC. The consecutive waves of protests have resulted as the realization of the vulnerability of the common people who live amidst a fractionated insurgency and an unchained paramilitary force. Another Bramsh incident, another murder of Kulsoom and Hayat appear written on the wall; thus, pushing a large number of politically conscious youth into the field of action, and bursting the bubble of fear. The random and unsynchronized solidarity committees in the name of Bramsh on their turn are converging into committees beyond any particular incident. The material conditions for a broader Baloch solidarity movement are in the making. A civil rights movement with potentials to become the dominant political force of the society seems viable.

This article aims at highlighting key aspects of the Bramsh solidarity committee phenomenon, the possibilities of its turning into a Baloch solidarity movement and the historical responsibility of progressive forces in an imminent political movement.

Birth of A Movement

To state the obvious, the three main incidents responsible for this new phase of mobilization – the murder of Maliknaz and Kulsoom in the hands of patronized criminal groups or death squads, and the murder of Hayat in the hands of FC are closely linked with the ongoing Balochistan conflict. The hostilities that started in early 2000 soon gave way to a war like situation. It culminated into two decades that are known for missing persons, mutilated bodies, and military operations. The groups responsible for the first two incidents, of Maliknaz and Kulsoom, were created mainly to counter the militancy. After serving their purpose these groups were not disbanded; soon, they started to attack the ordinary population, often the weakest section.

The victims of such groups have been mainly the working class population and the petty bourgeoisie or the middle class, consisting of small land owners and traders who struggle to make ends meet. The Baloch indigenous economy is either subsistence agricultural, livestock, or fishing economy operating under-resourced to meet household needs or the informal economy which runs parallel to the capitalist state economy. Nevertheless, the contribution of state economy on mass level is limited to government jobs which serve as the only sustainable source of income. The larger ‘primary’ economic sector of natural resources, has never been a part of indigenous economy, instead, it has turned into a tool of exploitation; therefore, limiting the economic options for the local population while strengthening the tribal elite and the security establishment in the resource rich areas, while making the situation worse for the lower classes.

The working class and petty bourgeoisie, while struggling with such economic hardships have to face the death squads and the security forces in their daily lives, while they work on their farms, manage their small shops, trade in the market, and even in their leisure – for example on picnic spots. These daily encounters have the utmost possibility of turning deadly any moment. This is what happened with Hayat Baloch and his family. It is the fait accompli of every peasant that goes to see his crop, every farmer that goes to the farm, every fishermen that goes to the sea, every shop owner who has to go the Bazar daily to earn a living.

“Hayat could have survived if he had enough time to clear the civil service examination and join the bourgeoisie through the bureaucratic channel but he wasn’t there as yet, instead he was son of a farmer who had to keep working on his farm despite bomb blasts and armed clashes.”

The Baloch bourgeoisie – comprising of the dominant tribal elite, along with its non – tribal large business owners, the monied politicians and bureaucrats – has a rare privilege in this security situation. Extracting the surplus created by the working class, or the money they have collected on their name, they have raised armies of their own. They have enough armed men to guard them from violent attacks, unlike the working class which is a soft target – either attacked easily for being a spy or who happens to be in the line of fire between the militants and the security forces in his daily quest for economic survival. The Baloch bourgeoisie avoid being killed in the hands of militants as well the security forces and death squads using either his armed men or the privileges it has gained due to the membership of the upper class status. Hayat could have survived if he had enough time to clear the civil service examination and join the bourgeoisie through the bureaucratic channel but he wasn’t there as yet, instead he was son of a farmer who had to keep working on his farm despite bomb blasts and armed clashes.

The bourgeois class have been dominating the political superstructure of Baloch society since 1990’s by occupying the top leadership in nationalist parties of different names. In these three decades, they have turned from ordinary sons of Sardars or Nawabs or Mirs, the middle class business owner and bureaucrat into capitalist rent-seekers who own multi – billion businesses and real estate here and abroad and have established partnerships with various tycoons. The capital they have accumulated resides abroad and does not makes any appearance at home except in the elitist lifestyle of their children who proudly and shamelessly flaunt their upper class status in a society living at the edge of economic desperation and social chaos. In Balochistan where the bourgeoisie have its political roots in the nationalist politics they never admit to their own economic and social privileges, instead their entire politics is based on the illusion that the exploitation of Baloch and Balochistan is national and thus constant across the boundaries of economic class and social status.

The politically conscious strata of lower classes have historically affiliated themselves with the bourgeoisie leadership since the emergence of popular nationalist politics in 1980s and its maturity in the proceeding decade. This affiliation has however changed over the years as the bourgeoisie class proved repeatedly their incapability to lead the society towards social justice leave alone national revolution. The failure of bourgeoisie leadership has contributed to the alienation of masses from political process in general resulting in a political gap and the rise of nationalist militancy followed by a ruthless counter insurgency regime. Various non-conventional and independent bodies in the form of either civil society, students’ unions, or localized solidarity groups in response of recent events are emerging out of this political gap.

The Solidarity Committees

Over the past decade of terror, a new generation has grown up that is now an active part of students and youth politics. This new generation, like Hayat Baloch, wants to think and act beyond conflict, they are politically conscious of their economic conditions, the rottenness of their social structures, and the corruption of national leadership. They are fed-up of unpleasant daily encounters they have with the security forces at check posts, in their campuses, on the farms, and on the streets. They refuse to live under the fear of death squads, they don’t want to be led by a corrupt leadership, they want to live with freedom and dignity. This is the new political force, the raw material for an ensuing social movement born out of a deadly conflict situation.

In Makkuran, where the above mentioned three prominent incidents happened the new wave of protests are led by the civil society which is dominated by the students. Civil society is a new phenomenon in Balochistan which emerged with increasing urbanization and the resulting civic sense among the educated youth and intellectuals. The corruption and overall lack of concern in the state institutions administering these urban centres has resulted into an acute lack of amenities. The condition of educational institutes and health felicities is worst even in rapidly growing towns like Turbat and Panjgur with no adequate infrastructure and utilities such as gas, electricity and water supply. The organization of educated youth and intellectuals into various kinds of social groups have been a response to this deficit in civic services. Amid a depoliticized atmosphere, the civil society has been a vibrant social force accommodating within its ranks active forces from across the society, including students organized within campuses.

The conflict situation and its belligerent forces, the state and militants have hardly been the subject of interest for the civil society before the recent protests. The Dan’nuk incident pushed the civil society out in the streets in solidarity with a victim of a situation that it has always avoided to consider into its agenda. The civil society although has all the necessary ingredients to initiate an event-based solidarity campaign, is far from leading a sustainable movement of political significance. The constraints of civil society became visible soon after the formation of Bramsh solidarity committees that could not translate the momentum into social and political structures to create a sustainable force. With the condemnation of a criminal act and its political patronage, and the expression of solidarity with the victim, the civil society has served its purpose – reaching the limits of its structural capacity.

Need for a Progressive Movement

The resolution of an armed conflict and an end to arbitrary rule by the state forces is a question of political authority over the society and cannot be resolved without the organization of masses under a revolutionary program that enables them to take the political authority in their own hands. The dominant political forces of Baloch society, hitherto, have failed to perform this historical task in a tribal society that is in the middle of a modern nation building project. In the absence of an organized progressive political force the civil society in its various forms is inclined to fall prey to the reactionary nationalists who have already started influencing the solidarity committees in different cities. The national bourgeoisie is struggling to reclaim the political authority over the society that it has lost a decade earlier. While on the other hand the more radical groups are also trying to reclaim their support base through tried and tested methods.

The killing of Hayat Baloch is transforming the Bramsh solidarity committees in their respective constituencies. A transformation that has the potential to emerge in the form of Baloch solidarity movement against the arbitrary rule of state on Baloch society and the impunity that it has given to abduction and killing of the youth. It is the historical responsibility of the progressive tendencies to fight against the attempts by the reactionary forces to manipulate this transformation for their political gain. The progressive students, intellectuals, and the working class parties need to unite, organize and strengthen their bonds with the masses that is the only way the reactionary forces can be defeated and a new progressive political force can be built from within the society.

Note: This article is a collective effort by Balochistan Marxist Review team.


1 On 26th May, 2020 armed men stormed a house in Dan’nuk area in the outskirts of Turbat city in south-west Balochistan killing a woman Malik Naz and seriously injuring her four years old daughter Bramsh. One of the culprits was apprehend by vigilant neighbours was identified as a member of one of the many criminal gangs operating in Makkuran region. The incident became an epitome of anger among the masses against the criminal groups known as death squads. A viral video of little Bramsh on a hospital bed crying for her mother resulted into a wave of protests across Balochistan and the formation of Bramsh solidarity committees.

2 On the night of 14th June, 2020 Kulsoom a working class women was murdered in front of her children during a robbery in Tump area of Kech district. The incident further inflamed the anger of the masses and resulted into a new wave of protests to follow the earlier campaign against Dan’nuk incident.

3 On 22nd August 2020, a day of protests was marked in solidarity with Hayat Baloch who was killed by Frontier Constabulary on 13th of August in Absar area of Kech district. The protests originally called by Karachi University based Baloch Educational Students Organization, the students body Hayat was affiliated with, was later joined by Bramsh solidarity committees and other progressive organizations all across Pakistan. Protests demonstrations, candle light vigils and solidarity marches were held in at least 32 districts.