سانحہ ڈنک اور اس کے خلاف اٹھنے والی رد عمل سے بلوچستان سیاسی بیداری کے ایک نئے دور میں داخل ہوا۔ عام عوام کی ایک بڑی تعداد خاص طور پر نوجوان جو گزشتہ ایک دہائی پر محیط خوف کے ماحول میں سیاسی عمل سے دور ہو گئے تھے ایک عرصے کے بعد پہلی مرتبہ برمش سے یکجہتی کے نعرے کے ساتھ احتجاجی مظاہروں کی شکل میں سڑکوں پر نکل آئے۔ سیاسی گھٹن کے ماحول سے بیزار نوجوانوں نے روایتی قوم پرست اور شاہ کے وفادار سیاسی جماعتوں کے سہارے کے بغیر ایک موثر احتجاجی تحریک چلا کر عوامی سیاست کو واپس اپنے ہاتھوں میں لینا شروع کیا۔ سیاسی بیداری کا یہ عمل اگرچہ سڑکوں پر اور گلی محلوں میں جاری تھا اس کی گونج سوشل میڈیا پر بھی برابر سنائی دی۔ خواتین کی شمولیت نے اس پورے احتجاجی عمل میں ایک نئی جہت کا اظافہ کر دیا۔ یوں نوجوان، طلبہ اور دانشور طبقہ، خواتین کی واضح نمائندگی کے ساتھ ، پارلیمانی اور غیر پارلیمانی سیاست کرنے والے قوم پرست پارٹیوں سے الگ ایک نئی عوامی سیاسی قوت کی شکل میں سامنے آیا جس کی مثال حالیہ بلوچ سیاسی تاریخ میں نہیں ملتی۔ رہنماؤں کے زاتی مفادات کی بنیاد پر منقسم روایتی قوم پرست سیاست کا حصہ بننے کے بجائے عوامی سیاسی بیداری کی نئی لہر اپنے آپ میں منظم ہوتی ہوئی، نئے نعروں کے ساتھ ایک غیر مرکزی عوامی تحریک کی شکل میں سامنے آئی۔
سانحہ ڈنک اور اس کے ایک مہینے بعد ہی تمپ میں کلثوم بی بی کی شہادت سے اٹھنے والی عوامی سیاسی بیداری کی لہر حیات بلوچ کے سفاکانہ قتل سے ایک نئے دور میں داخل ہوا۔ ڈنک اور تمپ واقع کے رد عمل میں ہونے والے احتجاجی مظاہروں کی نسبت حیات بلوچ کی شہادت کے خلاف عوامی سیاسی رد عمل بلوچستان سے باہر بھی واضح طور پر دیکھنے میں آیا۔ بلوچستان کے تمام چھوٹے بڑے شہروں کے علاوہ ملکی سطح پر مختلف ترقی پسند حلقوں کی جانب سے کراچی، حیدرآباد، لاہور اور اسلام آباد میں بھی احتجاجی پروگرام منعقد کیئے گئے۔ وزیرستان جیسے علاقے جو خود دہائیوں سے ظلم و بربریت کا سامنا کر رہے ہیں وہاں بھی مقامی لوگوں کی طرف سے صدائے احتجاج بلند کیا گیا۔ حالانکہ مقامی انتظامیہ اور فرنٹیئر کانسٹیبلری کی جانب سے عوامی جذبات کو ٹھنڈا کرنے کی بھرپور کوشش کی گئی۔ ایف سی نے حالات کی نزاکت کو بھانپتے ہوئےاپنے ایک اہلکار کو پولیس کے حوالے کر دیاجبکہ پولیس نے معمول کے برعکس فوراََ ہی واقع میں ملوث اہلکار کے گرفتار ہونے کا اعلان بھی کر دیاجس کے بعد حکومتی نمائندوں کی جانب سے مذمتی بیانات آنا شروع ہوئے اور یہاں تک کہ آئی جی ایف سے بھی ورثا کے ساتھ تعزیت کرنے شہید حیات کے گھر پہنچ گئے۔ لیکن ان سب کے باوجود واقع کی نو دن بعد 22 اگست کو ملک گیر احتجاجی پروگرام منعقد ہوئے اور لوگ ہزاروں کی تعداد میں حیات کے ساتھ اظہار یکجہتی کیلئے سڑکوں پر نکلے۔
پے در پے ہونے والے دلخراش واقعات کے خلاف عوامی رد عمل در اصل سیاسی گھٹن سے تنگ عوام میں عدم تحفظ کے بڑھتے ہوئے احساس کا اظہار ہے۔ایک اور برمش کی بے بسی، ایک اور ملک ناز، کلثوم یا پھر حیات جیسے نوجوان کا قتل دیوار پہ لکھا نظر آتا ہے۔ اس ناقابل گریز خطرے کا احساس سیاسی طور پر باشعور نوجوانوں کی ایک نمایاں تعداد کو سیاسی میدان میں دکھیلنے کا سبب بنا جس سے سالوں سے قائم خوف کا حصار بلآخر ٹوٹ گیا۔ برمش کے ساتھ ہمدردی کیلئے بنائی گئی کمیٹیوں سے جو سیاسی ماحول بنا اسے کسی ایک واقعے تک محدود کرنا ممکن نہ تھا اور نہ ہی سیاسی میدان میں فعال کسی گروہ میں اس نئی سیاسی قوت کو اپنے اندر سمونے کی سکت تھی۔
ایک وسیع تر پر امن عوامی تحریک کے مادی حالات اپنی نقطہ عروج تک پہنچتے جا رہے ہیں جس کا اظہار سیاسی و سماجی جبر کے خلاف اٹھنے والے عوامی رد عمل کی شکل میں ہو رہا ہے ۔ ایک پر امن تحریک جو سماج کی نمایاں سیاسی قوت بنے خارج از امکان نہیں۔ اس تحریر میں ہم برمش یکجہتی کمیٹیوں سے شروع ہونے والے عوامی سیاسی بیداری کے اس لہر کا ایک وسیع تر عوامی سیاسی تحریک میں تبدیل ہونے کے امکانات اور ترقی پسند قوتوں کی تاریخی کردار کا جائزہ لینگے۔
عوامی تحریک کیلئے سازگار ہوتے حالات
جرائم پیشہ گروہوں یا بدنام زمانہ ڈیتھ اسکواڈ کے ہاتھوں ملک ناز اور کلثوم کی شہادت ہو یا ایف سے اہلکاروں کے ہاتھوں حیات بلوچ کی شہادت اگر دیکھا جائے تو تینوں واقعات بلوچستان میں جاری شورش سے جڑے ہیں۔ جنرل مشرف کی فوجی حکومت کے دوران شروع ہونے والی سیاسی کشیدگی نے نواب اکبر بگٹی کی شہادت کے بعد جنگ کی شکل اختیار کرلی جو کہ آگے جا کر خوف کے دہائی میں منتج ہوا جہاں جبری اغوا اور مسخ شدہ لاشیں معمول بن گئی۔ ملک ناز اور کلثوم کی شہادت میں ملوث گروہ اسی دوران سامنے آئے جن کا بنیادی مقصد مخالف مسلح تنظیموں کو ختم کرنا تھا۔ اپنے مقصد میں کسی حد تک کامیاب ہونے کے بعد ان گروہوں کو ختم نہیں کیا گیا بلکہ وہ لاقانونیت کے ماحول میں پھلتے پھولتے رہے اور جلد ہی پر امن شہریوں اور خاص طور پر کمزور طبقات پر ٹوٹ پڑے۔
ان گروہوں کے سفاکانہ کاروائیوں کا نشانہ عموماََ بزگر، دہقان اور روزنداری پر گزارہ کرنے والا محنت کش طبقہ یا پھر چھوٹے پیمانے پر زمینداری یا دیگر کم آمدنی والے کاروبار پر گزارا کرنے والا سفید پوش اور نسبتاََ تنگ دست طبقات ہوتے۔ بلوچستان کی مقامی معیشت کا انحصار بنیادی طور پر زراعت، مالداری اور ماہی گیری جیسے کم پیداوار ی شعبوں پر ہے ۔ بارڈر سے منسلک متوازی معیشت مکران سمیت اندرون بلوچستان کیلئے ایک متبادل زریعہ معاش بن چکا ہے ۔ مقامی معیشت میں زبوحالی سے متاثر محنت کش عوام کی کثیر تعداد بارڈر کے غیر مستحکم کاروبار سے وابستہ ہے جہاں بمشکل ہی لوگوں کا گزر بسر ہوجاتا ہے۔ ریاستی معیشت کا کردار عوامی سطح پر سرکاری نوکریوں تک محدود ہے جسے واحد مستحکم زریعہ معاش کی حیثیت حاصل ہے ۔ قدرتی وسائل جن کی وجہ سے بلوچستان عالمی دنیا میں جانا جاتا ہے کبھی بھی مقامی معیشت کا حصہ نہ بن سکے ۔ بلکہ ہمیشہ سے ہی قدرتی وسائل مقامی لوگوں کے استحصال کا سبب بنے جن سے ہونے والی اربوں ڈالر کی پیداوار سے ایک طرف قبائلی بالادست طبقہ اور سیکیورٹی اسٹیبلشمنٹ مضبوط ہوا ہے وہیں غربت کے شکار مقامی محنت کش آبادیوں کیلئے معاشی مواقع مزید کم تر ہوئے اور ان کی حالت مزید ابتر ہوتی گئی۔
ان معاشی سختیوں سے دوچار محنت کش، چھوٹے زمیندار اور کاروباری طبقہ کو اپنے روز مرہ کی زندگی میں کھیتوں پر کام کرتے ہوئے، بازاروں میں دوران کاروبار اور یہاں تک کے فارغ اوقات میں اپنے گلی محلوں میں یا تفریح گاہوں میں نہ صرف سیکیورٹی فورسز کا بلکہ ان جرائم پیشہ گروہوں اورڈیتھ اسکواڈز کا بھی روزانہ کی بنیاد پر سامنا کرناپڑتا ہے جہاں کسی بھی لمحے کوئی سانحہ رونما ہونے کے امکان موجود ہوتے ہیں۔ یہی کچھ حیات اور ان کے والدین کے ساتھ ہوا۔ ہر وہ دہقان جو روزانہ کھیتوں پر کام کرنے جاتا ہے، ہر مچھیرا جو سمندر میں رزق کی تلاش میں نکلتا ہے اور ہر دکان دار جو کاروبار کیلئے بازار کا رخ کرتا ہے وہ ہر لمحہ اسی خوف سے گزر رہا ہوتا ہے۔
بلوچستان کا مقامی بورژوازی یا بالادست طبقہ جو کہ قبائلی ایلیٹ اور دولت کا وسیع زخیرہ رکھنے والے کاروباری طبقے، سیاستدان اور بیوروکریٹس پر مشتمل ہے اس شورش زدہ صورتحال میں خصوصی رعایت رکھتے ہیں جنہوں نے عوام کی محنت کی کمائی کا بڑا حصہ ہتھیا کر یا پھر ان کے ترجمانی کے نام پر سیاسی زرائع سے دولت جمع کر کے اپنے دفاع کیلئے لشکر کھڑے کیئے ہیں۔ ان کے پاس اتنے مسلح لوگ ہمہ وقت موجود ہوتے ہیں جو پر تشدد واقعات میں ان کی ذاتی حفاظت کر سکیں جبکہ عام عوام انہی واقعات میں آسانی سے نشانہ بن جاتے ہیں۔ مقامی بالادست طبقہ بیک وقت مسلح تنظیموں اور سیکیورٹی فورسز کے تشدد سے اپنے محافظوں کی مسلح قوت یا پھر بالادست طبقے میں اپنی حیثیت کی بنیاد پر اپنی حفاظت کرتا ہے۔ حیات شاید بچ سکتا تھا اگر اسے سول سروسز کا امتحان پاس کرکے بیوروکریسی کے توسط سے مراعات یافتہ طبقے کا حصہ بننے کا موقع ملتا لیکن وہ ایک محنت کش کا بیٹا تھا جنہیں بم دھماکوں کے باوجود اپنے کھیتوں میں رہ کر محنت کرنا تھا۔
گزشتہ تین دہائیوں سے یہی بالادست طبقہ مختلف قوم پرست پارٹیوں کی قیادت کی شکل میں بلوچ سیاست پر براجمان ہے۔ اس دوران یہ طبقہ سردار نوابوں کی اولادوں اور متوسط طبقے کے کاروباری شخصیات اور بیوروکریٹس کی حیثیت سے برائے راست سرمایہ دار بنا یا پر سرمایہ دارانہ معیشت میں کمیشن خوری کے زریعے حصہ دار بن گیا۔ آج ان نام نہاد قوم پرست سیاست دانوں کے پاس دولت کے انبار لگے ہیں جو کہ نہ صرف مقامی طور پر جائیدادیں رکھتے ہیں بلکہ خلیجی ممالک سمیت دنیا کے دوسرے حصوں میں عالمی سرمایہ داروں کے ساتھ ان کے شراکت داریاں چل رہی ہیں۔ ان کا بیشتر سرمایہ بیرون ملک منڈیوں میں لگا ہوتا ہے جس کا اظہار مقامی طور پر صرف ان کے اولاد کی شاہانہ طرز زندگی میں نظر آتا ہے۔ ان بورژوا سیاستدانوں کی اولادیں بڑی شان سے اپنی طبقاتی برتری اور دولت کی نمائش ایک ایسے سماج میں کرتے ہیں جو اپنے آپ میں معاشی بدحالی کی ایک مثال ہے جہاں عوام کی اکثریت بنیادی سہولیات سے محروم سماجی اور سیاسی انتشار کی سی کیفیت سے دوچار ہیں۔ بلوچستا ن کا بورژوازی جس کی جڑیں قوم پرستی کی سیاست میں پیوست ہیں کبھی بھی اپنے معاشی اور سماجی مراعات کا اعتراف نہیں کرتے ۔ بلکہ ان کی سیاست کا زور اسی تصور پر قائم ہے کہ بلوچ اور بلوچستان کا استحصال قومی بنیاد پر ہو رہا ہے جس سے وہ بھی اتنے ہی متاثر ہیں جتنا کہ معاشی طور پر زبوں حالی کا شکار اور سماجی طور پر انہی کے زیر دست ایک عام بلوچ۔
بلوچستان کے زیر دست طبقات کا سیاسی طور پر باشعور حصہ تاریخی طور پر انہی بورژوا قیادت کے ساتھ وابستہ رہا ہے جنہوں نے ہر دور میں اپنے طبقاتی مفادات کو اولیت دیتے ہوئے عوامی توقعات کو پس پشت ڈالا ہے۔ قوم پرست قیادت کی اسی حقیقی کردار کے سامنے آنے کے سبب حالیہ برسوں میں زیر دست طبقات اور مراعات یافتہ قومی قیادت کے درمیان وابستگی ختم ہو کر بیگانگی کی شکل اختیار کرتا جا رہا ہے۔ یہ بیگانگی قومی سیاست میں واضح طور پر نظر آتا ہے جہاں عوام کی اکثریت بلعموم سیاسی عمل سے بیگانگی کا شکار ہوتے جارہے ہیں۔ قوم پرست پارٹیوں کی گرفت سے آزاد طلبا تنظیموں، سول سوسائٹی اور عوامی یکجہتی کے مقامی تنظیموں کی شکل میں مختلف غیر روایتی بنیادوں پر لوگوں کا اکھٹا ہونا سابقہ سیاسی قوتوں سے اسی بیگانگی کا اظہار ہے۔
عوامی سیاسی یکجہتی
گزشتہ دہائی کے خوف کے ماحول میں ایک نئی نسل پروان چھڑ چکی ہے جو اب طلبہ اور نوجون سیاست کا ایک فعال حصہ ہے۔ نئی نسل جس کا حیات بلوچ حصہ تھے سیاسی تنازعات سے آگے سوچنا چاہتے ہیں۔ وہ اپنے معاشی حالات، بوسیدہ سماجی ڈھانچے اور قومی قیادت کے دیوالیہ پن کا سیاسی ادراک رکھتے ہیں۔ اپنے تعلیمی اداروں میں، کھیتوں میں، گلی محلوں میں سکیورٹی کے نام پر اسلحہ برداروں کی موجودگی سے اکھتائے ہوئے نوجوانوں کیلئے مزید کسی ڈیتھ اسکواڈ کے خوف کے سائے میں رہنا نا ممکن ہو چکا ہے۔بلوچستان کا نوجوان عوامی جذبات بھڑکانے والے موقع پرست سیاسی قیادت کے پیچے چلنے سے انکار کرتے ہوئے ایک آزاد اورباوقار زندگی گزارنا چاہتے ہیں۔ یہی سیاسی قوت وہ خام مال ہے جس سے شورش زدہ ماحول میں ایک نیا سماجی و سیاسی تحریک جنم لے سکتا ہے۔
مکران جہاں مزکورہ تینوں افسوسناک واقعات رونما ہوئے وہاں پر امن سیاسی احتجاج کی نئی لہر کی قیادت سول سوسائٹی کر رہی ہے جس میں طلبہ و طلبات ایک فعال کردار ادا کر رہے ہیں۔ بلوچستان میں سول سوسائٹی نسبتا نیا مظہر ہےجو کہ شہری آبادی کے پھیلاؤ اور پڑے لکھے طبقات میں بڑھتے شہری حقوق کے ادراک کے ساتھ ساتھ سامنے آیا ہے۔ شہری مراکز میں انتظامی اداروں کی مفاد عامہ سے مکمل لاتعلقی اور کرپشن کی وجہ سے تربت اور پنجگور جیسے مرکزی شہر پانی، بجلی اور گیس جیسے بنیادی سہولیات سے محروم ہیں ۔تعلیم یافتہ نوجوانوں اور دانشور ادیبوں کا مختلف سماجی تنظیموں میں متحرک ہونا انہی بنیادی مسائل پر عوامی سیاسی رد عمل کا ابتدائی اظہار ہے۔ ایسے حالات میں جبکہ عوامی مسائل کے حل کیلئے حقیقی سیاسی سرگرمیوں پر مختلف قدغنیں ہیں سول سوسائٹی ایک متحرک سیاسی قوت کے طور پر سامنے آیا جو سماج کے مختلف پرتوں کواجتماعی مسائل کے حل کیلئے وقتی طور پر ہی سہی لیکن ایک مشترکہ پلیٹ فارم پر لانے کا سبب بنا۔
ڈنک واقع کے بعد پہلی مرتبہ سیاسی مسائل جنہیں عموماً نظر انداز کر دیا جاتا تھاسول سوسائٹی کے ایجنڈے کا حصہ بن گئیں ۔ البتہ انفرادی واقعات کے رد عمل میں سیاسی طور پر باشعور طبقات کو متحرک کرنے میں اہم کردار رکھنے کے باوجود سول سوسائٹی عوامی رد عمل کو ایک با اثر تحریک میں تبدیل کرنے سے قاصر رہی۔ سیاسی میدان میں سول سوسائٹی کا محدود کردار برمش یکجہتی کیمپین میں واضح ہوا جہاں بے مثال عوامی رد عمل ایک پائیدار سیاسی تحریک میں منتقل نہ ہو سکا۔ اپنی مخصوص ساخت میں سول سوسائٹی کی افادیت مجرمانہ واقعات میں ملوث قوتوں کی مذمت اور متاثرین کے ساتھ ہمدردی تک ہی محدود ہے۔
ایک ترقی پسند تحریک کی ضرورت
معاشی و سیاسی جبر کی حکومت اور اس سے پیدا ہونے والی خونی تنازعہ کا حل سماج پر سیاسی اختیار کا مسئلہ ہے اور اس وقت تک حل نہیں ہو سکتا جب تک جبر کے شکار عوام ایک انقلابی پروگرام کے تحت منظم ہوکر سیاسی قوت اپنے ہاتھوں میں نہیں لیتے۔ ایک منظم ترقی پسند لائحہ عمل کے بغیر سول سوسائٹی کی سیاسی قوت بہ آسانی روایتی رجعتی گروہوں کے ہاتھوں میں مرکوز ہو سکتی ہے جن کا مقصد عوامی سیاسی قوت کو اپنے گروہی مفادات کے حصول کیلئے استعمال کرنا ہے۔ عوام کی سیاسی قوت کو یکجا کر کے اسے ایک پر امن سیاسی تحریک کی شکل میں منظم کرنا ان قوتوں کے ہاتھوں ممکن نہیں جن کی سیاسی قوت کا دار و مدار جبر کے شکار عوام کی حمایت کے بجائے اشرافیہ یا پھر عالمی سرمایہ داروں کی خوشنودی حاصل کرنے پر ہو۔
عوام کر متحد اور منظم کرنے کیلئے ان ترقی پسند قوتوں کو آگے آنا ہوگا جو سماج میں رائج بالادستی کے ڈھانچوں کا حصہ بننے کے بجائے عوامی سیاسی قوت کی بنیاد پر سیاسی و سماجی بالادستی اور اس سے پیدا ہونے والی جبر کے مکمل خاتمے سماجی برابری اور انصاف پر یقین رکھتے ہوں۔ ترقی پسند قوتوں کی یہ تاریخی زمہ داری بنتی ہے کہ وہ آپس میں متحد و منظم ہو کر عوام میں اپنی جڑیں مضبوط کریں اور ایک ایسے عوامی تحریک کی آبیاری کریں جس کی قوت اور قیادت بالادست طبقات یا عالمی سرمایہ داروں کے نمائندوں کے بجائے عوام کی اپنے ہاتھوں میں ہو۔