عبدلناصر
یہ مضمون بین الاقوامی تعلقات عامہ کی مد میں نظریہ انحصار پذیری* کی مناسبت سے لکھا گیا ہے کہ کیا نظریہ انحصار پذیری موجودہ ترقی یافتہ اور ترقی پذیر ممالک کے بیچ غیر متوازی معاشی حالات اور معاملات کو سمجھنے میں کارآمد ہے؟
بین الاقوامی تعلقات عامہ پر ہمیشہ سے مغرب کی ایک چھاپ رہی ہے جس بنا پر عالمی مسائل کو ہمیشہ مغرب کی نقطہ نظر سے دیکھا جاتا رہا ہے، جس کے نتیجے میں محکوم و مظلوم اقوام کی آواز، خدشات و تحفظ ہمیشہ دب کر رہ گئیں۔
نظریہ انحصار پزیری لاطینی امریکہ کے مفکرین کی طرف سے دیا گیا ایک مقبول نظریہ جو مغربی نقطہ نظر، مغرب سے جڑی جدیدیت اور ترقی کے بیانیے کا بطور ایک تنقید ابھر کر سامنے آئی۔ انیس سو پچاس سے انیس سو اسی کی دہائی تک ڈی کالونائزیشن کے نتیجے میں جب نئی ریاستیں بننا شروع ہوئیں تو پہلے پہل ان ریاستوں میں انیسویں صدی کے مغرب کی نسبت تیز ترین معاشی ترقی دیکھنے کو ملی، اس بناء پر یہ خیال کیا جانے لگا کہ جدیدیت ایک آفاقی مظہر ہے جسے اپنا کر قدیم سماج ترقی کر سکتے ہیں۔ اس بیانیے میں ایک بنیادی قضیہ یہ تھا کہ ترقی کو براہ راست مغربی اقدار مغربی فکر اور طرز عمل سے جوڑ کر غیر مغربی نقطہ فکر سے قطع نظر کیا جاتا رہا۔
بقول آندرے فرینک بیشتر مؤرخین کے مطالعے کا محور ترقی یافتہ ممالک رہی، جبکہ نوآبادیات زدہ ترقی پذیر ممالک پر نہایت قلیل توجہ مبزول کیا گیا۔ ترقی پذیر ممالک کے نو آبادیاتی تجربوں سے قطع نظرایک مغالطہ یہ بھی ہے کہ ترقی یافتہ اور ترقی پذیر ممالک کے تاریخی تجربوں کو ایک ہی کسوٹی میں تولہ جاتا ہے جبکہ آندر فرینک کے بقول پسماندگی ایک آفاقی مظہر نہیں اور نہ ہی آج کے ترقی یافتہ سماج پہلے کبھی پسماندہ رہی ہیں۔ اپنے تاریخی تحقیق کی بنا پر آندرے فرینک یہ کہتے ہیں کہ موجودہ پسماندگی ترقی یافتہ اور ترقی پذیر ممالک کے بیچ معاشی اور دیگر تاریخی معاملات کا نتیجہ ہے اور یہ غیر متوازی معاملات عالمی سطح پر سرمایہ دارانہ نظام کا ایک اہم جزو ہیں جس میں پسماندہ ممالک ترقی یافتہ ممالک کو خام مال کے ساتھ ساتھ سستی انسانی محنت بھی مہیا کرتی ہیں جس سے ترقی یافتہ ممالک زائد سرمائے کا گڑھ بن جاتی ہیں۔ اس کے برعکس سرمایہ اور منافع پسماندہ ممالک کو سرمایہ دار ممالک کے معاشی مفادات اور منشا کے مطابق مہیا کی جاتی ہیں۔ یہ کہنا بے جا نہیں ہوگا کہ سیاسی اور معاشی طاقت سرمایہ دار ممالک کے ہاتھوں کا کھلونا ہے۔ یہ وہ پہلو ہے جسے مارکسی نکتہ نظر میں سامراجیت کہتے ہیں۔
نظریہ انحصارپزیری کے مرکزی دعوٰے
پسماندگی ایک ایسی نوعیت ہے جس میں وسائل تیسری دنیا کے ممالک سے نکالنے کے باوجود بجائے وہاں بروئے کار لانے کے ترقی یافتہ ممالک کے مفاد میں استعمال ہوتی ہیں۔
یہ نظریہ باہر سے مسلط کردہ اصولوں کے بجائے وسائل کے استعمال کی متبادل طریقوں پر زور دیتی ہے۔
اس نظریے کے مفکرین ہر ملک کے معاشی مفاد کی بات کرتے ہیں اور ان کا ماننا ہے کہ قومی مفاد غربت اور پسماندگی دور کیئے بغیر حاصل کرنا ممکن نہیں۔
غاصب ریاستیں تیسری دنیاکے ممالک میں وسائل کی لوٹ کھسوٹ نہ صرف خود کرتی ہیں بلکہ وہاں موجود اشرفیہ اور برسراقتدار طبقہ اپنے مفادات کے لئے بھی اس لوٹ کھسوٹ میں ان کی معاونت کرتا ہے ان دونوں طبقوں کے آپسی مفادات ایک دوسرے سے مشروط ہیں جو انحصار پذیری کا موجب بنی ہوئی ہیں۔
نظریہ انحصار پذیری اور موجودہ دور
اگر دیکھا جائے تو طبقاتی فرق اور نابرابری آج بھی واضح نظر آتی ہے۔ بقول ڈوس سینٹوس بین الاقوامی تجارتی تعلقات اور مارکیٹ میں سرمایہ داروں کی اجارہ داری ہے جس میں پیداوار کا زائد حصہ سرمایہ داروں کے کھاتے میں جاتا ہے جس کے نتیجے میں پسماندہ ممالک ان سرمایہ دار ممالک کا مقابلہ نہیں کر پاتے۔ نہ برابری کی یہ لکیر کسی نہ کسی شکل میں اب بھی پائی جاتی ہے جیسے کہ پسماندہ ممالک کے محصولات پر عائد پابندیاں، عالمی مارکیٹ میں بنیادی اشیاء کی قیمتوں کا گھٹنا، یہ وہ عوامل ہیں جن سے غریب ممالک بری طرح متاثر ہو رہی ہیں۔ ڈوس سنٹوس کے بقول انحصار کے اس آپسی رشتے میں معاشی معاملات کی ڈُور حاکم ریاستوں کے ہاتھ میں ہوتی ہے اور اپنے فائدے اور منافع کی خاطر یہ حاکم ریاست معاشی معاملات سود کی بنیاد پر طے کرتی ہیں جو ان کی گرفت کو پسماندہ ممالک پر مزید مضبوط کرتی ہے۔
نظریہ انحصار پذیری کے مطابق جب یہ پسماندہ ممالک عالمی سرمایہ دارانہ نظام کا حصہ بنتی ہیں تو بیرونی سرمایہ ان کے معاشی وسائل سمیت دیگر معاملات کو اپنے قابو میں کرتی ہے جس سے پسماندہ ممالک ترقی کے بجائے حاکم ریاستوں کے مفادات کی تکمیل کا باعث بنتی ہیں۔
ان عالمی نابرابریوں کا ایک دوسرا پہلو ہمیں فنی اور صنعتی انحصار کی صورت میں ملتا ہے جن پر حاکم ریاستوں کی اجارہ داری ہے اور وہ اس کے ذریعہ پسماندہ ممالک کی صنعت کو اپنے مفادات کے مطابق ڈھال دیتی ہیں۔اس معاملے میں ان پسماندہ ممالک کو ٹیکنالوجی کی ترسیل بھی حاکم ریاستوں کے لئے منافع بخش ہوتا ہے، کیونکہ تیسری دنیائی ممالک کے لئے اس ٹیکنالوجی کا حصول ممکن نہیں ۔ بعض اوقات ان پسماندہ ممالک میں ٹیکنالوجی کی ترسیل بہت حد تک محدود کی جاتی ہے جو کہ ان ممالک میں صنعتی زبوں حالی کا موجب بن کر مزید پسماندہ ممالک کو سرمایہ دار ممالک کےسامنے زیر کرتا ہے۔ امیر ممالک اپنے سرمائے کی وجہ سے ہی جدید ٹیکنالوجی اور ایجادات کے اہل ہیں خواہ وہ ڈیجیٹل ٹیکنالوجی ہویا طِب سے متعلق، پسماندہ ممالک انہی حاکم ریاستوں کی نظر کرم پر ہیں۔
نظریہ انحصار پذیری اور عالمی مالیاتی بحران
کارل مارکس نے سرمایہ داری کو ایک ترقی پسند تاریخی مرحلے کے طور پر دیکھا جو بالآخر اندرونی تضادات کی وجہ سے جمود کا شکار ہوگا اور اس کی جگہ سوشلزم لے گی۔ تاریخ کا دقیق مطالعہ کیا جائے تو یہ بات عیاں ہوتی ہے کہ موجودہ نظام کے انسانی تجربے تلخ ثابت ہوتی نظر آئیں گی خواہ وہ 1930 کا عالمی مالیاتی بحران ہو یا پھر اس سے بھی ہیبتناک 2008 کا مالیاتی بحران۔ ان جیسے کئی معاملات نظریہ انحصار پزیری اور اس نظریے کے مفکرین کے دعووں کو صحیح ثابت کرتی ہیں۔ عالمی مالیاتی بحران نے سرمایہ دار اور پسماندہ ممالک کو بری طرح متاثر کیا ہے اور ان ممالک کے بیچ ایک بڑی خلاء پیدا کی ہے۔
اب جبکہ بڑے مالیاتی ادارے سرمایہ دارممالک کے زیر اثر ہیں تو اس بیچ پسماندہ ممالک کو بوقت ضرورت سرمائے کی رسد میں بڑی مشکل کا سامنا ہوتا ہے کیونکہ مالیاتی ادارے ان سرمایہ دار ممالک کی اجازت کے بغیر ان پسماندہ ممالک سے کسی بھی قسم کی معاونت نہیں کرتیں۔
جب 2008 کا مالی بحران اپنے بام عروج پر تھا تو کوفی عنان نے افریقہ پروگریس پینل کے ساتھی ارکان ، مشیل کیمڈیئس اور رابرٹ روبن کے ساتھ مل کر فنانشل ٹائمز میں اپنے ایک مضمون میں ترقی یافتہ اقوام سے مطالبہ کیا کہ وہ ترقی پذیر دنیا کے ساتھ اپنے موجودہ وعدوں ، خاص طور پر امدادی سطحوں کا احترام کریں اور مالی بحران کو بطور بہانہ بنا کر ان اقوام کو ایسے نہ چھوڑیں اور ساتھ ساتھ انھوں نے ایک نئے عالمی معاشی انتظام کی بات کی۔ جس میں پسماندہ ممالک کو بھی شامل ہونا چاہیے تاکہ ان کی آواز بھی سنی جائے۔
دوسرے لفظوں میں اگر کہا جائے تو 2008 کے عالمی مالیاتی بحران نے سرمایہ دارانہ نظام کا سفاک چہرہ مزید عیاں کیا اور اس بحران نے آزاد منڈی (لبرل اکانومی) کے فلسفے پر سوال کھڑے کیئے۔ بقول پیٹراس اور ویلٹ میئر سرمایہ داری عالمگیریت کی شکل میں سماجی برابری، جمہوری اقدار اور آزاد فیصلہ سازی کے دعوؤں میں بالکل ناکام ثابت ہوئی ہے۔
نظریہ انحصار کے مفکرین کے خیالات کی بات کی جائے تو ان میں ایک بنیادی نقص انحصار کو ایک واضح لکیر کے طور پر دیکھنا ہے جبکہ ایسا نہیں ہے۔ انحصار مختلف صورتوں میں پائی جاتی ہے جیسے کہ اوپر بیان کیا گیا ہے اور یہ مسلسل ایک تبدیلی سے گزر رہی ہوتی ہے اس کی ایک واضح شکل نہیں ہوتی۔
بنیادی طور پر نظریہ انحصار پزیری کے مفکرین کا خیال تھا کہ پسماندہ ممالک اس انحصار سے سرمایہ دار ممالک سے علیحدگی اختیار کر کے نکل سکتے ہیں۔ جبکہ ایسا نہیں ہوا بلکہ سرد جنگ کے خاتمے کے بعد ہمیں ترقی یافتہ اور ترقی پزیر ممالک میں مزید ہم آہنگی دیکھنے کو ملی۔
اگر ہم 2008 مالیاتی بحران کو مد نظر رکھتے ہوئے سرمایہ دارانہ نظام کا جائزہ لیں تو یہ بحران واضح طور پر نظریہ انحصار پزیری کے عالمی نابرابری کی بابت دیئے گئے دلائل اور خیالات کو صحیح ثابت کرتی ہے۔ ہاں البتہ نظریہ انحصار پزیری کو موجودہ حالات پر لاگو کرتے وقت ہمیں محتاط انداز میں چیزوں کو دیکھنا چاہیئے، ایسا نہیں ہے کہ ایک ترقی یافتہ ملک میں مالی اتار چڑھاؤ سے پسماندہ ممالک متاثر ہوتی ہیں ۔
دیگر نظریوں کی طرح نظریہ انحصار پزیری کو بھی سراہا گیا ہے اور اس پر تنقید بھی کی گئی ہے۔ اس نظریے کی بھی اپنی کچھ خامیاں اور خوبیاں ہیں۔ پر نظریہ انحصار پزیری کے مفکرین کے خیالات اور دلائل آج بھی غریب اور امیر ممالک کے بیچ اور ان ممالک کے اندر بڑھتی ہوئی نابرابری کی خلاء کو صحیح معنوں میں بیان کرتی ہیں۔ آج ہمیں اپنے سماج میں ایک گہری تفریق دیکھنے کو ملتی ہے اور انحصار کا یہ رشتہ ہمارے سماجی ڈھانچے میں بھی کلی طور پر دیکھنے کو ملتی ہے۔
ماضی میں انحصار کے خیالات نے کچھ سیاسی حدود کو توڑ کر اُن وجوہات کی وضاحت کی جن کی وجہ سے دولت مند قومیں غریب ممالک سے فائدہ اٹھا رہی تھیں ، اور آج نظریہ انحصار پے در پے پیش آنے والی مالی بحرانوں ، قدرتی وسائل کا بے دریغ استعمال اور ترقی یافتہ اور ترقی پزیر ممالک کے بیچ بڑھتی خلاء کو بیان کرنے میں کارآمد ہے۔
__________________
* Dependency Theory نظریہ انحصار پذیری