
Click here to read the article in English
شاہینہ شاہین کا قتل بلوچ سماج میں عورتوں کی گھمبیر صورتحال کو ایک مرتبہ پھر منظر عام پر لے آیا ہے۔ بلوچ خواتین خاص طور پر وہ جو پدرشاہی کی سرخ لکیر کو پار کرنے کی ہمت کرتی ہیں وہ اس پر خطر صورتحال میں سب سے زیادہ متاثرہیں۔
بلوچ سماج میں پدرشاہی اپنی تمام تر جاوجلال کے ساتھ وجود رکھتی ہے جہاں سماجی، سیاسی اور فکری زندگی میں مردوں کی بالادستی عورت کی شمولیت کو صرف اس تک ہی برداشت کرتی ہیں جہاں یا تو عورت کا کردار مردوں کی متعین کردہ حدود کے اندر بند ہو تا کہ وہ زندہ تو رہے لیکن اپنی زندگی پر مرد کی اجارہ داری کے خلاف کبھی نہ اٹھ سکے۔
جوں ہی اک بہادر عورت مرد کی متعین کردہ تنگ دائروں سے آزاد ہونے کے عزم کا اظہار کرتی ہے اسے نہ صرف ڈرا دھمکا کر خاموش کرایا جاتا ہے بلکہ تشدد کا نشانہ بنا کر دن دھاڑے قتل کردیا جاتا ہے اور قاتل آزاد گھومتے رہتے ہیں جیسے کچھ ہوا ہی نہ ہو۔
ستمبر کی 5 تاریخ کو 25 سالہ شاہینہ کو تربت میں مبینہ طور پر ان کے شوہر مہراب گچکی نے قتل کیا اور لاش مقامی ہسپتال کے باہر چھوڑ کر فرار ہو گیا۔ مہراب کے ساتھ شاہینہ کی شادی چند مہینے قبل ہوئی تھی۔ باخبر ذرائع کے مطابق شوہر نے قتل کے بعد بلا خوف و خطر شاہینہ کی ماں کو فون کیا اور انہیں ہسپتال سے اپنی بیٹی کی لاش اٹھانے کا کہا۔
مکران کے سماجی و سیاسی حالات میں مہراب گچکی کی اپنے انجام سے بے فکری قابل فہم ہے۔ سابق والی مکران گچکی خاندان کا فرد ہونے کہ وجہ سے مہراب کو ایک عو رت کے قتل پر نا قانون کا سامنا ہے اور نہ ہی کسی مقامی جرگے کا جس کا ڈر اسے کسی ایسے مزموم حرکت سے باز رکھتا۔ اگرچہ مکران سے قبائلی اثر رسوخ ختم ہوئے نصف صدی سے زائد گزر چکا ہے لیکن صدیوں پر محیط ظلم و جبر کی بنیاد پر قائم سماجی برتری اب بھی نہ صرف وجود رکھتی ہے بلکہ کھل کر اپنے وجود کا احساس بھی دلا رہا ہے۔
سابقہ قبائلی حیثیتیں نئے دور کے معاشی قوتوں بین الاقوامی منشیات کے کاروبار، مذہبی شدت پسندی اور تیل کے بیوپار سے وابستہ چند منظم گروہوں کے ساتھ مل کر مکران میں جرم کی نئی سلطنت چلا رہے ہیں۔ حالیہ دنوں میں رونما ہونے والے واقعات میں ان گروہوں کے کردار اور ان کو ملنے والی کھلی چھوٹ سے ان کی مقتدر اداروں سے وابستگی کا اندازہ لگانا مشکل نہیں۔
شاہینہ کے قتل سے بلوچ سماج میں پہلے سے موجود بے چینی میں اضافہ ہوا ہے جو کہ عورتوں پر ہونے والے حملوں کی حالیہ سلسلے کی وجہ سے پیدا ہوا ہے ۔ سیاسی حلقوں کی جانب سے شاہینہ کے قتل کو بلوچ عورتوں پر ہونے والے حملوں کے تسلسل کا حصہ قرار دیا جا رہا ہے۔
عمومی تاثر یہ ہے کہ دہائیوں پر محیط کشیدگی پورے سماج کو متاثر کر چکا ہے جہاں مردوں کے ساتھ ساتھ اب خواتین بھی برائے راست نشانہ بن رہی ہیں البتہ سیاسی جبر کے علاوہ بلوچ سماج کے اندر جبر کی مختلف اندرونی شکلیں بھی وجود رکھتی ہیں جنہوں نظر انداز کیا جاتا ہے۔ بلوچ سماج کا اندرونی جبر سیاسی کشیدگی کے زیر اثر ایک اندوہناک شکل اختیار کر چکا ہے جسے مزید نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔پدرشاہی کا جبر انہی اندرونی جبر کی مختلف شکلوں میں سے ایک ہے جو سماج پر مرد کی بالادستی،عورت مخالف رویہ اور صنفی امتیاز کی عمومی اظہار کے ساتھ ساتھ عورتوں پر تشدد کی مختلف شکلوں میں منظر عام پر آرہا ہے۔
ہم یہ سمجھتے ہیں کہ شاہینہ بلوچ سماج کی پدرشاہانہ ساخت میں موجود اندرونی جبر کا نشانہ بنی۔شاہینہ کو جوانی میں تشدد اور موت کا سامنہ کرنا پڑا کیونکہ وہ ایک عورت تھی جسے ہر حال میں اپنے شوہر کے خواہش کے مطابق زندگی گزارنی تھی چائے وہ خواہشات کتنی ہی مذموم کیوں نہ ہوں۔ اسے خود پر لگائی گئی بےجا پابندیاں قبول کرنی پڑیں، اپنی سماجی زندگی سے قطع تعلق کرنا پڑا، اپنے فن سے دستبردار ہونا پڑا، اور سب سے بڑھ کر اسے خاموش ہونا پڑا اس شاہینہ کو جسے دوسرے بے آواز عورتوں کی آوازبننا تھا۔ بلوچ سماج میں کسی بھی مرد کو اپنے صنف کی وجہ سے کبھی بھی ایسی پابندیوں کا سامنا نہیں کرنا پڑتا جن کی خلاف ورزی کی سزا موت ہو۔ بلا شبہ بلوچ مرد کو شدید سیاسی جبر کا سامنہ ہے جہاں وہ روزانہ کی بنیاد پر لاپتہ ہوتے ہیں، تشدد جھیلتے قتل کر دیئے جاتے ہیں لیکن بلوچ عورت کیلئے سیاسی جبر کے علاوہ صرف اس کا صنف قتل کا پروانہ ثابت ہو رہا ہے خاص طور پر ان خواتیں کیلئے جو مردوں کی تعین کردہ حدود سے آزاد زندگی گزارنا چاہتی ہیں۔
یہ کہانی صرف شاہینہ کی نہیں بلکہ بلوچستان کے ہر اس عورت کی کہانی ہے جو بدلتے معاشی و سماجی حالات میں تنگ دائروں سے نکل کر اس سماج زندگی کا حصہ بننا چاہتی ہے جس پر مردوں کا غلبہ ہے ان میں سے کچھ مرد گروہوں کی شکل میں نہ صرف منظم ہیں بلکہ مسلح بھی ہیں اور عورت پر اپنی مردانہ بالادستی قائم کرنے کیلئے معصوم زندگیوں سے کھیلنے سے بھی گریز نہیں کرتے۔
شاہینہ شاہین کون تھی؟
شاہینہ بی بی ماہ رنگ کی پانچ بیٹیوں میں سے سب سے بڑی تھی۔ شاہینہ کی ماں ماہ رنگ اپنے آپ میں پدرسری معاشرے کے خلاف جد و جہد کی ایک مثال ہیں۔ بیٹا نہ ہونے کی باعث پانچویں بیٹی کی پیدائش پرباپ نے جوان ماں کو بیٹیوں کے ساتھ بے آسرا چھوڑ کران سے قطہ تعلق کر لیا۔ بی بی ماہرنگ نے پدر شاہی کے سامنے ہار نہیں مانی اور اپنی بیٹیوں کو کسی مرد کے سہارے کے بغیر اپنے پاؤں پر کھڑا کیا۔انہیں تربت میں پہلی خاتون ہونے کا اعزاز حاصل ہے جس نےاپنے بیٹیوں کو پالنے کیلئے خود گاڑی چلائی۔ آج بھی تربت شہر میں عورت کے گاڑی چلانے کو معیوب تصور کیا جاتا ہے اور بہت سے ایسے خواتین جو ملازمت کرتی ہیں اپنے خاندان کے مردوں کی دباؤ کی وجہ سے خود گاڑی نہیں چلا سکتے۔
شاہینہ کی پرورش ایک مضبوط عورت کی زیر سایہ ایک ایسے گھر میں ہوئی جہاں پدرشاہی کے قوائد و ضوابط نافظ کرنے والا بالادست مرد کوئی نہیں تھا۔ ان کی ماں نے مردوں کے سماج سے لڑتے ہوئے اپنی بیٹیوں کیلئے نئے مواقع پیدا کیئے جو کہ بلوچ سماج میں اکثر خواتین کے دست رس سے باہر ہوتی ہیں۔ شاہینہ یہیں سے اپنے جہدوجہد کا آغاذ اس مقصد کے ساتھ کرتی ہیں کہ جو مواقع اسے حاصل ہوئیں وہ بلوچستان کی تمام عورت کی حاصل ہوں۔ ماہ رنگ کی جدوجہد نئی نسل میں منتقل ہو چکی تھی جس نے اسے پورے سماج میں پھیلانے کا بیڑا اٹھایا۔
شاہینہ نے آغاز ‘دزگہار’ سے کیا جسے بلوچی زبان میں عورتوں کی پہلی میگزین ہونے کا اعزاز حاصل ہے۔ دزگہار کی پہلی جلد 2014 میں شایع ہوئی جس کا مقصد خاتون لکھاریوں کو عورتوں کیلئے مخصوص پلیٹ فارم مہیا کرنا تھا۔دزگہار پہلی اشاعت کے بعد وقتی طور پر رک گیا لیکن شاہینہ کہیں نہیں رکیں۔ اپنے اگلے محاذ پر انہوں نے پی ٹی وی بولان کے اسٹیج کے توسط سے انٹرٹینمنٹ انڈسٹری میں قدم رکھا۔ شاہینہ کاکردار بطور میگزین ایڈیٹر خاص توجہ کا سبب نہیں بنا لیکن انٹرٹینمنٹ انڈسٹری ایک عوامی مقام تھا جس کے اکثریتی ناظرین مردوں پر مشتمل تھی جو کہ اپنے ٹی وی اسکرین پر مردوں کی صنفی برتری اور سماج میں رائج مرد اور عورت کے مخصوص کردار کو تبدیل ہوتے ہوئے ناگواری کے ساتھ دیکھ رہے تھے۔
اکیسیوں صدی کے ظہور کے ساتھ رونما ہونے والی تبدیلیوں کے آثار اگرچہ بلوچستان میں دیر سے پہنچے لیکن وہ پہنچے ضرور۔ٹیکنالوجی کی سرمادارانہ ترقی اور معاشی ڈھانچوں کی مونیٹایزیشن کے زیر اثر زوال پزیر سماجی ساخت میں نئے اور ترقی پسند پرتیں سامنے آنا شروع ہوئیں۔ نئے مادی حالات رائج الوقت پسماندہ اقدار کے ساتھ ہم آہنگ نہ ہونے کی وجہ سے تبدیلی کا سبب بنیں جس کے بطن سے سماجی وجود کے اظہار کی نئی شکلیں سامنے آئیں۔
شاہینہ سماجی تبدیلی کا چہرہ تھیں۔ انہوں نے اپنا زریعہ میڈیا کو بنایا جس کے توسط سے بلوچستان کے متوسط طبقے کے ہر گھر تک ان کی آواز اور ان کا پیغام پہنچا۔ شاہینہ اور ٹی وی اسکرین پر آنے والی ان جیسی بہت سی دیگر بلوچ خواتیں اگرچہ اکثر مرد ناظریں کیلئے انٹرٹینمنٹ کے علاوہ کچھ نہیں تھی لیکن مردوں کی دنیاں میں قید خواتین ناظرین کیلئے وہ ایک نئی دنیا کے ترجمان تھی ۔انہوں نے بلوچ خواتین کو اپنے خود ساختہ محافظ مردوں کی دنیا سے پرے دیکھنے کی ترغیب دی۔
انٹرٹینمنٹ انڈسٹری نے شاہینہ کو مشہوری کی ساتھ ساتھ معاشی طور پر مستحکم بنایا جس سے وہ اس قابل ہوئی کہ سماج پر مردوں کی بالادستی اور اس کی نتیجے میں بننے والے ثقافتی اور مذہبی اقدار کو للکار سکے۔ شاہینہ نے آرٹ کے زریعے بلوچ عورت کے کرب کو کینوس پر اتارا جو کہ ہر بلوچ عورت کی طرح اس کی اپنی ذاتی زندگی کا کرب بھی تھا۔شاہینہ نے اپنی فنی علم کو وسیع کرنے کیلئے بلوچستان یونیورسٹی میں فنون لطیفہ کے شعبے میں داخلہ لیا جہاں سے 2015 میں انہیں ان کی قابلیت کے اعتراف میں گولڈ مڈل سے نوازا گیا۔ شاہینہ کا ماننا تھا کہ بلوچ خواتین کو مناسب مواقع فراہم ہوں تو وہ پدرشاہی نظام کے زنجیروں سے آزاد ہو کر ایک نئی دنیا تخلیق کرسکتی ہیں۔
مردوں کی بالادستی پر قائم اسٹیٹس کو کے خلاف جانے کی قیمت شاہینہ کو اپنی زندگی میں پل پل چکانا پڑی۔ انہیں نوجوانی میں اپنی کزن کے ساتھ ایک بے جوڈ شادی پر راضی ہونا پڑا کیونکہ مردانہ سماج ایک غیر شادہ شدہ عورت کو کسی صورت برداشت نہیں کر سکتی تھی جو ان عورتوں کیلئے ایک مثال بننے جارہی تھی جن عورتوں کو مردوں نے اپنے سوچ کے تنگ دائروں میں قید رکہا ہوا ہے۔ شاہینہ نے بھی سوچا ہوگا کہ شاید شادی کے بعد ان پر انگلیاں اٹھنا بند ہو جائینگی لیکن ایسا نہ ہو سکا۔ ان کی اس سمجھوتے کا نتیجہ ذاتی زندگی میں پیچیدگیوں اور بلاخر طلاق پر ختم ہوا۔ پہلے شوہر سے علیحدگی مختصر مدت کیلئے ہی سہی سکھ کا سبب بنی اور شاہینہ بھرپور انداز میں اپنے تخلیقی سرگرمیوں کی طرف لوٹ گئی۔ اسی دوران شاہینہ نے اپنے جوان خواب کی تعبیر میں دزگہار میگزین کی اشاعت دوبارہ شروع کی اور اپنے آرٹ کے زریعے ایک نئی پہچان بنانے لگی جو کہ ان کی بطور ٹی وی میزبان شناخت سے یکسر مختلف تھی۔ اپنی نئی زندگی میں شاہینہ کی ملاقات ان کے ہونے والے شوہر اور مبینہ قاتل نوابزادہ مہراب گچکی سے ہوئی۔
شاہینہ پسماندہ سماج کے اونچ نیچ پر مبنی حد بندیوں اور تقسیم پر یقین نہیں رکھتی تھی۔وہ ایک ایسے راستے پر گامزن تھیں جو نہ صرف معاشی اور سماجی سرحدوں کے آر پار جاتی تھی بلکہ مکران کی سماجی درجہ بندی کی بنیاد ذات پات کے نظام کو بھی پامال کرنے سے نہیں کتراتی تھی۔قبائلی دور سے رائج ذات کا تصور غیر قبائلی مکران میں بھی اپنے پوری قوت سے قائم ہے۔ شاہینہ ان حدود کو چھو چکی تھیں جہاں تک ایک بلوچ عورت اپنی زندگی داو پر لگا کر ہی پہنچ سکتی تھی۔مہراب گچکی کی دنیا میں شاہینہ کیلئے کوئی جگہ نہیں جہاں سماجی رتبہ، جرم اور مذہبی انتہا پسندی سے جاملتی ہے ۔
قتل سے قریب چھ مہینے قبل شاہینہ نے اپنے ماں کے مخالفت کے باوجود مہراب گچکی کے ساتھ شادی کرلی لیکن ان کے شوہر نے اپنے خود ساختہ رتبے کو جواز بنا کر شادی کا کبھی کھلے عام اقرار نہیں کیا۔ ایک خفیہ شادی کے بعد شاہینہ کو مجبور کیا گیا کہ منظر عام پر نہ آئے کیونکہ شاہینہ کی شہرت انتہا پسند مذہبی گروہوں سے وابستہ ایک خود ساختہ نواب زادے کے رتبے کیلئے خطرہ تھا۔ شاہینہ کو نہ صرف اپنا پیشہ چھوڑنے پر مجبور کیا گیا بلکہ انکی سماجی اور تخلیقی سرگرمیوں پر بھی روک لگا دی گئی۔
قتل سے مہینوں قبل شاہینہ کو کسی سماجی نشست میں نہیں دیکھا گیا۔ 5 ستمبر بروز ہفتہ شاہینہ کو اس کا شوہر ایک مکان میں لے گیا جہاں اسے تشدد کا نشانہ بنانے کے بعد قتل کر دیا گیا۔ شاہینہ کا قاتل جسم اور چہرے پر تشدد کے نشانات کے ساتھ لاش کو اپنی گاڑی میں مقامی ہسپتال کی گیٹ پر چھوڑ کر اس خوف سے آزاد وہاں سے چلا گیا کہ ایک عورت کے قتل کا انجام کیا ہوگا۔
نوٹ: یہ تحریر بلوچستان مارکسسٹ ریویو ٹیم کی مشترکہ کاوش ہے۔
Pingback: The Agony of Baloch Women – Balochistan Marxist Review
Pingback: مارکسی نظریات پر گامزن بی ایس او – Balochistan Marxist Review